حزب اختلاف یا حزب بغض و عناد

الیکشن ختم ہونے سے پہلے ہی جنرل اسلم بیگ کے دروازے پر لائن لگا کر کھڑے ہو گئے کہ جناب مارشل لا لگا دیجیے
تحریر – شاہد رضوی
پاکستان دنیا کا واحد جمہوری ملک ہے جس میں حزب اختلاف نہیں ہے اس کے بجائے ہمارے پاس حزب بغض و عناد بن گئی ہے بنانے والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے انکو بیٹر میں انڈے تو ٹھیک رکھے تھے یا تو مشین میں کوئی فنی خرابی پیدا ہو گئی ہے یا پھر انڈے ہی کسی اور شے کے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ عجب بے وطن اور لاوارث سی ایسی جماعتیں نکل آائیں جن میں کسی کا سرافغانی اور پیر چینی تھے کسی کی ٹانگیں سعودی عرب سے آئی تھی اور پیشانی امریکی سجدوں کے نور سے جگمگا رہی تھی کسی کی ریشں مبارک کے پیچھے ہیروئن کی پڑیاں جھانک رہی تھیں کسی کی بغل میں کلاشنکوف دبی ہوئی تھیں بینائی ایسی کہ کبھی امریکی اڈے نظر آرہے ہیں کبھی بالکل نظر نہیں آتے صرف عہدہ ہی عہدہ نظر آاتا ہے بعض ایسے نکلے جن کا سر تھا نہ پیر محض سینہ تھا جو دھونکنی کی طرح چل رہا تھا ان تمام ڈھانچوں کو غور سے دیکھا تو ہر ایک کی الگ خصوصیت نکلی مثلا ایک معمر ترین سیاستدان اگر آپ سیاستدان کہنے پر بضد ہیں کی آخری خواہش یہ تھی کہ ان کو صدر بنا دیا جائے خواہ حلف دینے کے لیے بھی ان کو سہارا دینا پڑے دوسرے صاحب کو اپنی دانست میں وزیراعظم ہونا چاہیے تھا ایک صاحب خزاں رسیدہ پیڑ کی طرح اس امید پہ کھڑے تھے کہ شاید ان کی پتیاں بھی ہری ہو جائیں
اخبار والوں کو یہ پریشانی تھی کہ اس ملغوبہ کو کیا کہیں کیونکہ اس پر اسلامی جمہوری اتحاد جچ نہیں رہا تھا وجہ یہ ہے کہ ایک پارٹی کا اسلام ایک ارب روپے کے قرضہ کا نام تھا دوسری جماعت کا اسلام امریکہ سے ڈالروں، اسلحہ اور خچروں کی امداد کا تابع تھا یہی حال جمہوریت کا تھا کہ ایک کی جمہوریت ایسی قوم پرست جمہوریت تھی کہ ہر جمہوریت مخالف طاقت کا دامن پکڑنے کو تیار
دوسرے کی جمہوریت ایسی کہ وہ خود وزیراعلی نہ بنے – ملک میں جمہوریت تھی ہی نہیں اور اتحاد کا یہ عالم کہ ہر ایک دوسرے کو خونخوار نظروں سے دیکھ رہا تھا اتنی بات ضرور تھی کہ اگر کوئی اور ان کی طرف دیکھے تو ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے کی کوشش ضرور کرتے تھے چونکہ جلدی اتنی تھی اسی لیے اخبار والوں نے تیکنیکی غلطی کر دی اس لیے ملغوبے کو پیار سے حزب اختلاف کہنے لگے – اسں وقت جلدی میں کسی نے غور نہیں کیا کہ نام غلط رکھ دیا ہے لیکن جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ حزب اختلاف تو ایک معزز نام ہے جس کا ان حرکتوں سے کوئی تعلق ہی نہیں الیکشن ختم ہونے سے پہلے ہی جنرل مرزا اسلم بیگ کے دروازے پر لائن لگا کے کھڑے ہو گئے کہ جناب مارشل لا لگا دیجیے کیونکہ عزت جائے تو کوئی بات نہیں آنی جانی شے ہے لیکن اربوں روپیہ جو ضیا سے معاف کروا لیا تھا واپس کرنا پڑے گا وہاں سے مایوس ہوئے تو غلام اسحاق خان سے کہا کہ اقلیت ہونے نہ ہونے سے ووٹ پڑنے نہ پڑنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا آٹھویں ترمیم ہم نے آپ ہی کے پاس کی تھی اور داشنہ آید بکار یعنی رکھی ہوئی چیز ہمیشہ کارآمد ثابت ہوتی ہے کہ مصداق یہ ترمیم ہم نے ابھی تک محفوظ رکھی ہے لہذا آپ فورا وزیراعظم بنا دیں غلام اسحاق خان نے بہت دیر تک غور کیا پھر ان سے کہہ دیا کہ ابھی تو یہ بات ممکن نہیں انشاءاللہ آائندہ دیکھیں گے قائم مقام صدر نے انہیں تسلی دی کہ سب کے آئینی مفادات کا وہ تحفظ کریں گے انہوں نے اس تسلی کو پروانہء راہداری سمجھ لیا اور دیکھ لیجئے کہ صدر صاحب سے وزیراعظم ، بیرونی وفود حتی کہ عید بقر عید کو ملنے والوں کی تعداد اتنی نہیں ہوتی جتنی تعداد میں اور جس فریکونسی سے یہ رہنما ملتے ہیں یہ اور بات ہے کہ صدر صاحب ان کو ہر دفعہ آئینی تقاضے سمجھا کر واپس کر دیتے ہیں
مرکز پنجاب محاذ آرائی سے کام نہ چلا اپنا ٹی وی، اپنا بینک ،اپنی خارجہ پالیسی کے دھمکیاں ناکارہ ثابت ہوئیں جلسہ عام میں خواتین رہنماؤں کو گالیاں، ایک ایسے ملک میں جہاں عورت کو گالی دینا بےغیرتی اور ذلالت سمجھا جاتا ہو لوگوں میں پنجابی شاونزم کا پرچار صوبہ کو پولیس سٹیٹ بنا دینا- ماشاءاللہ سبحان اللہ کیا کیا حربے ہیں ضیاء الحق کے روح داد دے رہے ہوگی کہ اس کے شاگردوں نے حق شاگردگی اور حق نمک ادا کر دیا
بدقسمتی سے ایک اور صاحب جنہیں ان کے حلقہ انتخاب نے اپنے ووٹوں کا اہل نہ سمجھا، ایک ایسے حلقے سے جہاں لوگ اسے جانتے تک نہ تھے منتخب ہو کر ان میں شامل ہو گئے بدقسمتی کا لفظ اس لیے ہم نے استعمال کیا کہ ان کے شامل ہونے سے مرض میں اضافہ ہو گیا یعنی کسی نے غلط داد دے دی سرحد سے ایک اور صاحب کو شدید غصہ آیا کہ ابھی تک سرحد میں ان کا گورنر نہیں رکھا گیا جس سے گورنری کا وعدہ کیا تھا وہ الگ ناراض ہو رہا تھا لہذا خان صاحب نے کہا جہنم میں جائے ترقی پسندی اور سیکولرازم میرے بندے کو گورنر کی ملازمت نہیں دی لہذا معاہدہ ختم – لطیفہ یہ ہوا کہ جن لوگوں نے ان کے بندے کو گورنر نہیں بننے دیا انہی کی گود میں جا کر بیٹھ گئے ادھر ایک اور ترق پسند دانشور جو کمیونسٹ افغانستان کے 12 سال مہمان رہنے کے بعد دوبارہ پیدا ہوئے ہیں خان صاحب کے سر پہ ہمنوائی کر رہے ہیں ان دونوں جمہوریت پسندوں کی کوشش یہ ہے کہ جمہوریت کو سر کے بل کھڑا کر دیں
اس حزب بغض و عناد کے لیے کاتب تقدیر نے ایک حقیقی بدقسمتی بھی لکھ دی جو غلام مصطفی کھر کی شکل میں نازل ہوئی جنگ کے ایک مشہور کالم نگار نے سوال کیا تھا کہ کیا یہ وہی غلام مصطفی کھر ہیں؟ ہمارے خیال میں اب تک ان کو یہ جواب پہنچ گیا ہوگا کہ یہ وہی غلام مصطفی کھر ہیں- یہ کالم نگار کبھی ہمزاد کا لقب اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ یہ سلیری صاحب کے ہمزاد ہیں
ہم یہاں تک لکھ پائے تھے کہ معلوم ہوا کہ کل تحریک بغض و عناد جس کا آئینی تقاضوں کی وجہ سے نام تحریک عدم اعتماد ہے بحث کے لیے اسمبلی میں پیش ہوگئی اسے جمہوری حقوق کے نام پہ تحریک تخریب جمہوریت برائے تحفظ آمریت بھی کہتے ہیں یہ تحریک باولی ہنڈیا میں سے برآمد ہوئی تھی اس کا انجام دو دن پہلے ہی واضح ہو گیا تھا جب اس تحریک کی حمایت کرنے والے ممبران پریس سے کم عوام سے زیادہ منہ چھپائے پھر رہے تھے اور تحریک بغض و عناد کے ترجمان اخبار والوں کی روزانہ کم ہوتی ہوئی تعداد گلوگیر آواز میں بتاتی تھی کہ آج 127 میں سے پانچ کم کر دیں جب اخبار نویس پوچھتے تو 122 تو دکھا دیجیے تو جواب ملتا ہمیں مل جائیں گے تو آپ کو بھی دکھا دیں گے ایک صاحب نے کہا کہ جتوئ وزیراعظم ہوں گے دوسرے نے کہا آپ وزیراعظم کا نام سن کر حیران رہ جائیں گے یعنی جتوئی نہیں ہوں گے ہم اس سے یہ سمجھے کہ معذروں کے کوٹے سے انہیں کوئی اور مل گیا ہے پھر ایک اور چونکا دینے والا جھوٹ سنائی دیا کہ حکومت سب ممبروں کو ایوان میں آنے نہیں دے گی
ادھر ایم کیو ایم نے اعلان کر دیا تھا کہ معاہدہ کراچی توڑ دیا وہ تحریک بغض وعناد کی حمایت کرے گی سننا یہی ہے کہ آئی جے آئی نے انہیں 108 ممبران کیی فہرست دکھائی جو کہ تھانوں سے تصدیق کی ہوئی تھی اور بتایا کہ ایم کیو ایم کے 14 ممبر مل کر اکثریت ہی اکثریت ہے ایم کیو ایم کے سارے ممبر مرکزی وزیر ہو جائیں گے دو لاکھ بہاری واپس آجائیں گے ایم کیو ایم سے متعلق سارے قیدی چھوٹ جائیں گے اور آئندہ کسی کی کیا مجال جو ایم کیو ایم کے کسی بندے کو بند کرے ایم کیو ایم کے رہنما بہرحال سیاسی نا تجربہ کار ہیں اور منافقت اور اصولی سیاست کے فرق کو نہیں سمجھتے ورنہ اس بات پہ ضرور غور کر لیتے کہ تحریک تخریب جمہوریت ناکام بھی ہو سکتی ہے ادھر جتوئ صاحب نے سیکرٹری داخلہ کو آرڈر دیا کہ دیکھو زرداری باہر نہ جانے پائے اختیارات رکھتے ہوئے آرڈر دینا کیا بڑی بات ہے مزا تو یہ ہے کہ اختیار نہیں رکھتے اور آرڈر دے رہے ہیں اب اگر کوئی نہیں سنتا تو نہ سنے آرڈر دینا اور بات ہے اور آرڈر کی تکمیل ہونا اور بات ہے – کسی مجذوب کو پولیس کانسٹیبل کے چبوترے پر آپ نے کھڑے تو دیکھا ہوگا کہ کون سنتا ہے اس کی! لیکن یہ اس کا جمہوری حق ہے کہ وہ وہاں کھڑا ہو کر عوام کو تفریح مہیا کرے
نتیجے کی خبر تو ہمیں دو بجے مل گئی جس نے تصدیق کر دی کہ ممبران کی اکثریت نے تحریک مسترد کر دی لیکن اصل کارروائی شام کو نشر ہوئی ہم نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ یہ کاروائی دیکھی تھی لہذا متوجہ بیٹھے رہے سب سے پہلے جتوئی صاحب نے تقریر شروع کی جتوئی تقریر کے دوران آگے پیچھے جھول رہے تھے نتیجہ یہ کہ جب آگے کو جھولتے تو مائک سے آواز پوری آتی اور جب پیچھے کی جانب جھکتے تو آواز غائب ہو جاتی یا کم آتی ہمیں معلوم نہیں Tactic کہ یہ جھولنے کی جتوئ صاحب نے اب اختیار کی ہے یا پہلے سے ہے – ظاہر ہے کہ جتوئی صاحب حکومت پہ الزام لگا رہے تھے کہ بلوچستان کی اسمبلی توڑ دی پنجاب کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی زکوۃ اور عشر کو وقف سے نکال کے بجٹ میں شامل کر لیا وغیرہ لیکن ان کے جھولنے کے انداز کی بنا پر ان کی تقریر یوں سنائی دے رہی تھی کہ بلوچستان اسمبلی – توڑ دی – اکبر بگٹی – خرابی پیدا کی – پنجاب کی حکومت – مستحکم ہے – عیسی سیمنٹ – سے – زکوۃ و عشر – میں میرا حصہ – کدھر گیا – وغیرہ اسمبلی میں آواز اور مائیک کے کنٹرولر نے پہلے ہی معذرت کر لی تھی کہ تقریر میں آواز کہیں کہیں واضح سنائی نہیں دے گی ممکن ہے جتوئی صاحب نے یہ جھولنے کا انداز اس لیے اپنایا ہو کہ تقریر کے دوران جھولنے کا لطف بھی لیتے رہیں اور آواز بھی گڑبڑ کر دی جائے تاکہ بعد میں شکایت کریں کہ میری آواز دبانے کی کوشش کی گئی تھی یہ شکایت بعد میں کی گئی کہ جتوئی صاحب کی تقریر کے دوران آواز خراب کر دی گئی ہمیں یقین آجاتا اگر ہم نے جتوئی صاحب کو اسمبلی میں جھولتے نہ دیکھا ہوتا ہمیں یقین ہے اگر مائیک کنٹرولر کو جتوئی صاحب کے اس انداز کا علم ہوتا تو وہ دو تین جھولتے ہوئے مائیک بھی وہاں لٹکا دیتا مگر وہ غریب بےخبری میں مارا گیا اسے کیا خبر کہ سیاسی طریقہ کار کیا کیا ہوتا ہے ترتیب تو ہمیں یاد نہیں رہی بہرحال ایک تقریر مولانا فضل الرحمن نے کی مولانا ہر سیاسی موقع پر شرعی تقریر کرنے کے ماہر مانے جاتے ہیں اکثر تقریر نہ صرف موضوع سے بلکہ خود مولانا سے بھی غیر متعلق ہوتی ہے کبھی کبھار کوئی جملہ کام کا بھی کہہ دیتے ہیں تقریر بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کرتے ہیں خواہ اس میں کتنا ہی کسی کو برا بھلا کہیں اور ہمیشہ دعائیہ کلمات پر ختم کرتے ہیں ان کی تقریر کا موضوع شرعی بل تھا اور شکایت یہ تھی کہ وزیراعظم اس پر بات نہیں کرتی ڈاکٹر عمران فاروق حالانکہ ڈاکٹر ہیں لیکن صحت مشتبہ ہے اپنی تقریر میں دو تین اشعار سناۓ اور شکایت یہ کی ہے کہ حکومت بہاریوں کو نہیں لاتی اور اندرون سندھ مہاجروں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اس کا تدارک نہیں کرتی
ایک اور مقررہ تھیں سیدہ عابدہ حسین ان کی تقریر جوش و خروش سے انگریزی میں بھری ہوئی تھی اور مجموعی طور پر تمام تقاریر سے 62 پرسنٹ زیادہ جذباتی تھی ان کا خیال تھا کہ پنجاب صرف پنجاب نہیں بلکہ 62 فیصد پاکستان ہے لہذا ہر شے میں 62 فیصد کا حقدار ہے ان کا خیال تھا کہ 62 پر آکر فیصد کی گنتی ختم ہو جاتی ہے سنا ہے کہ ان کے گھوڑوں کے فارم ہیں سے جن میں پاکستان کے بہترین 62 فیصد گھوڑے پرورش پاتے ہیں ہم نے فخر امام صاحب کو بھی سنا ہے اور یقین سے کہتے ہیں کہ بیگم صاحبہ ہی 62 فیصد ہیں لہذا انہیں شکایت تھی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں کرپشن بہت بڑھ گیا ہے سیدہ عابدہ حسین واحد مقررہ تھیں جنہوں نے بالواسطہ اعتراف کیا کہ تحریک ناکام ہو گئی اور بے نظیر سے اپیل کی کہ وہ ایوان کو اپنے ساتھ لے کر چلیں غالبا نے اس میں 62 فیصد وہ رویہ بھی شامل تھا جو عورتوں کی فطرت ہے
اپوزیشن کے چار مقررین کے بعد قائد اعوان محترمہ بے نظیر نے تقریر کی تقریر کے شائستہ اور مہذب انداز اور اعتراضات کے مدلل جواب اور جوش جذبہ کے ساتھ ساتھ تقریر کے وہ جملے تھے جن کی زد میں جتوئی ، نصر اللہ، فضل الرحمن اور دوسرے آرہے تھے آٹھویں ترمیم، سیاہ چن، زکواۃ و عشر، پیپلز پروگرام، سرحد کی حکومت ان سب پر واضح موقف بیان کیا پھر ووٹنگ ہوئی اور تحریک بری طرح ناکام ہو گئی
بات یہاں ختم تو ہو جاتی مگر تحریک بغض و عناد کو کینہ پروری کا ورثہ غالبا” اونٹ سے ملا تھا سیشن ختم ہونے کے بعد پریس کانفرنس میں جتوئی صاحب نے شرمندگی اور ایوان کے احترام کی نقاب اتار دیا اور صحافیوں سے وعدہ کیا کہ وہ (جتوئی صاحب) پی پی پی کی حکومت کو ہر حال میں ختم کر کے دم لیں گے حالانکہ صحافی بیچارے سلسلے میں کوئی مطالبہ نہیں کر رہے تھے جتوئ صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ ووٹنگ کے وقت پی پی نے 22 ممبران کو باہر بھیج دیا اگر ہم جیسا کوئی جھوٹ بولے تو ڈرے گا کہ جھوٹ کھل گیا تو پٹائی ہو گئی جتوئ صاحب کو تو اس کا ڈر ہے نہیں لہذا انہوں نے کہہ دیا کہ 22 ممبران پی پی پی نے باہر بھیج دیے جتوئی صاحب نے ووٹنگ کے بعد جو تقریر کیس میں اس بات کا تذکرہ بھول گئے تاکہ پریس کانفرنس میں کہہ سکیں وہ اس بات کی طرف اسپیکر کی توجہ بھی نہیں دلا سکے کہ سپیکر پوچھ لیتا کہ بتاؤ کون کون گیا ہے انہیں کس نے نکالا ہے پریس کانفرنس میں صحافیوں نے نام پوچھے تو وہ جتوئی صاحب کو معلوم نہیں تھے سوال یہ ہے کہ اگر وہ جتوئی صاحب کے آدمی تھے تو ان کو نام معلوم ہوتے وہ لوگ جتوئی صاحب کے ساتھ بیٹھے ہوتے اور اگر وہ پی پی کے آدمی تھے تو جتوئی صاحب کو کیا پریشانی ہے؟ ادھر زاہد سرفراز صاحب کا کہنا ہے کہ ان کی بات نہیں مانی گئی اگر ان ممبران کو مقفل کر کے رکھا جاتا تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی ان کا غالبا” مطلب یہ تھا کہ مری کے ہوٹل کو سب جیل قرار دے دیا جاتا بہرحال نواز شریف – نصر اللہ خان – مصطفی جتوئی – زاہد سرفراز اور ان کا ٹولہ اس پر بضد ہے کہ وہ ہر موقع بے موقع قرارداد عدم اعتماد پیش کریں گے یہاں تک کہ پانچ سال پورے ہو جائیں گے