اپوزیشن میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے

تحریر – شاہد رضوی

سیاست میں اگر بدتہذیبی اور بدتمیزی کو شامل کر دیا جائے تو اچھا خاصا بندہ بشر میاں نواز شریف بن جاتا ہے یوں تو اپوزیشن میں آوے کا آوا ہی ٹیڑھا ہے لیکن میاں تو نور علی نور ہیں کیا کسی براق کپڑے پہ کیچڑ کا دھبہ- ایسے بہار دکھاتا ہوگا جیسے میاں صاحب 72 استعفوں کے ساتھ چمکتے ہیں

یہ استعفوں کا معاملہ بھی خوب رہا میاں صاحب نے اعلان کیا کہ وہ اور ان کے رفقا اسمبلی سے استعفی دے دیں گے بے نظیر نے کہا کہ یہ استعفی دے ہی نہیں سکتے اگر یہ استعفی دے دیں تو میں استعفی دے دوں گی میاں صاحب نے استعفے اسمبلی ہال میں ایسے لہرائے جیسے کوئی زخمی کبوتر پھڑپھڑاتا ہے ہم یہ سمجھے کہ استعفے اسپیکر کے میز پر پہنچنے ہی والے ہیں مگر یہ ہوا کہ استعفے میاں صاحب نے جیب میں رکھ لۓ اخبار والوں نے پوچھا تو میاں صاحب نے فرمایا کوئی میرا دماغ خراب ہے کہ میں استعفی دے دوں- پہلے بے نظیر استعفی دیں دعوی بمہ دھمکی میاں صاحب نے سوچے سمجھے بغیر دیدی تھی بعد میں کسی سیانے نے سمجھا دیا کہ میاں صاحب کیا کرتے ہو اسمبلی ٹوٹنے کے بجائے ضمنی انتخابات ہو جائیں گے ایک اور مشیر نے بتایا کہ میاں صاحب اگر وزیراعظم نے وزارت عظمی سے استعفی دے دیا باقی ان کی پارلیمانی پارٹی انہیں پھر لیڈر آف دی ہاؤس منتخب کر دے گی لیکن آپ اور آپ کی پارلیمانی پارٹی تو اسمبلی سے باہر کھڑی ہوگی اپوزیشن والے لاکھ ملکی اور قومی مفادات اور حساس مسائل کو نہ سمجھتے ہوں اور کبھی کبھی دوست اور دشمن معلوم ہوتے ہوں لیکن ایسے پاگل بھی نہیں کہ اپنے ذاتی مفادات کو نہ سمجھیں لاکھوں کروڑوں پہ کون لات مارے گا رہے اسکینڈل تو وہ آتے جاتے رہتے ہیں میاں صاحب سے زیادہ ایسے اسکینڈل کا توڑ کون جانتا ہے اس طوفان کے میاں صاحب پرانے شناور ہیں کیک کوآپریٹو ہو کہ تاج کمپنی- بینک کے قرضے ہوں کہ بیت المال اور جہز فنڈ- موٹروے ہو کہ یلو کیب- گاڑیوں کی خریداری ہو کہ مہران بینک میاں نواز شریف کو پتہ ہے کہ جب اپوزیشن بہت کمزور ہو تو حملہ کرنا ہی بہتر دفاع ہے لہذا گزشتہ سات مہینے سے ضیاء الحق کی روحانی اولاد جسے من پسند حکمرانی کا اس مرتبہ موقع نہیں مل سکا اسمبلی میں کہتی پھر رہی ہے کہ حکمران جماعت میں کوئی ایسا نہیں بچا جس کے خلاف میاں صاحب اور ان کے حواری الزامات لگانے اور شور مچانے میں پیچھے رہ گئے ہوں کہا جاتا ہے کہ سیاست سماجی ترقی کے مسائل کو حل کرنے اور مستقبل میں جھانکنے یعنی دوراندیشی کا نام ہے سماجی ترقی کے مسائل گئے بھاڑ میں

لیکن میاں صاحب کی دوراندیشی کا جواب نہیں وہ طریقہ اختیار کیا کہ ان کی اور ان کے حواریوں کی جمع پونجی پر کوئی حرف نہ آئے- بلکہ مزید کے امکانات موجود رہیں- اسمبلی کے باہر بھی میاں صاحب کا کاروبار اچھا خاصا چل رہا ہے سرحد گئے وہاں اے این پی کو بے وقوف بنا آئے ابھی تک بیگم نسیم علی خان سرحد اسمبلی کے دروازوں پر استعفوں کے انتظار میں بیٹھی ہیں کراچی آئے فسادات کرا گئے

میاں صاحب میں اتنی بھی اخلاقی جراتء نہیں ہے کہ ایم کیو ایم کے خلاف آرمی ایکشن کے اپنے ہی فیصلے کا دفاع کر سکیں- نواز شریف کی پریشانی یہ ہے کہ ان سات اٹھ مہینوں میں ہی سارے دفاعی مورچے ایک ایک کر کے ٹوٹ گئے ہیں اور ابھی چار سال سے زیادہ حکومت کے پاس باقی ہیں- ایٹمی مسئلہ، کشمیر کی قرارداد کا مسئلہ، بھارت سے تعلقات کا مسئلہ، سردار آصف اور ڈاکٹر شیر افگن کے خلاف شورو غوغا، آصف زرداری کے خلاف ڈس انفارمیشن کی مہم، وزیراعظم کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ، آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف ‘نٹ راج’ کے کرتب سب ہی کچھ جتن کر ڈالیں نتیجہ صفر- جھوٹ پلٹ پلٹ کے ٹوٹے ہوئے شیشے کی طرح اپوزیشن پر گرتا رہا

لہذا اب ایک زیادہ بڑا جھوٹ چاہیے ایک بڑا ٹارگٹ چاہیے سو بیچارے لغاری صاحب زد میں آگئے لغاری بے داغ کردار کے آدمی جس کا اعتراف حکومت اور اپوزیشن بھی کرتے رہے ہیں لیکن اگر کوئی الزام ہے تو اسے عدالت عظمی یا دونوں اداروں سے مشترکہ اجلاس میں تحریک کے ذریعے پیش کیا جا سکتا ہے

Scroll to Top