تنخواہ لینی ہو تو رشوت دو ورنہ گھر بیٹھو

تحریر – شاہد رضوی

اب عالم یہ ہو گیا ہے کہ پےرول سے تنخواہ لینے جائیے تو وہ بھی رشوت مانگتے ہیں کہتے ہیں خالی واؤچر کچھ آپ بھرئيے کچھ ہم بھریں ہم نے کہا کہ دستخط کر کے ہم دے دیتے ہیں باقی آپ بھر لیں ہمارے بال بچوں کا تو اللہ مالک ہے لیکن آپ جیسے تباہی واعمدا کین کو ہم بھوکا کیسے دیکھ سکتے ہیں ہم نے ان سے بھی کہا کہ وہ برا نہ مانیں ہم یہ واؤچر انہیں بڑے خوش دلی اور نیک نیتی سے دے رہے ہیں کیونکہ اس کے بعد قرض مانگتے اور گھر کا سامان بیچتے ہوئے قسم کھا کر تو یہ تو کہہ سکیں گے کہ تنخواہ کی ہم نے شکل نہیں دیکھی

باہر مہنگائی دفتروں میں رشوت اور گھر میں محترمہ مجنوں کی جان پرسہ طرف عذاب ہیں مہنگائی اور محترمہ میں کچھ سمبندھ ہے ترکاری والے سے ہم کہتے ہیں کہ بھائی کیوں گھر میں جھگڑا کراؤ گے بھنڈی چھ روپے کلو دے دو اور وہ شریف ادمی ہماری گھریلو عافیت کے پیش نظر کم بھاؤ پہ دے دیتا ہے گھر میں جب بیوی کہتی ہے کہ یہ بھنڈیاں بالکل خراب ہیں تو ہم بتاتے ہیں کہ کتنی مشکل سے ہم چھ روپے کلو لائے ہیں اصل مسئلہ اور دفتروں کی رشوت کا ہے جس رفتار سے یہ بڑھ رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دفتر میں جمعدار صفائی جب کرے گا جب اسے خاطرخواہ رشوت مل جائے گی افسر ترقی جب دے گا جب اسے معقول رشوت ملے گی چھوٹی رشوت پہ چھوٹی ترقی بڑےی رشوت پر بڑی سے بڑی ترقی بلکہ سرکاری کار بھی مفت بھرتی پہ تو رشوت

اب کھلے عام ہے سنا ہے ایک ستم ظریف نے گدھا ولد ڈامو کا تقرر نامہ رشوت دیکھ کے نکلوا لیا اور مزید کچھ رقم خرچ کر کے اس کی ترقی بھی کرا دی پھر اسے دفتر بھی لے کر آگئے اصل میں گدھا اصلی گدھا تھا اس کا باپ ڈامو اس سے بھی زیادہ اصلی گدھا تھا ہمیں درخواست میں دیے گئے کوائف کا تو علم نہیں لیکن یقین یہ ہے کہ گدھے کے قابلیت اس افسرسے زیادہ ہی ہوگی جس نے اس کا تقرر کیا

ہم اتنا پریشان ہو چکے تھے کہ ہم نے سب کام چھوڑ کر یہ سوچنا شروع کر دیا کہ قوم کی اصلاح کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے پہلے بھی ہم سر سید بننے کے چکر میں بہت نقصان اٹھا چکے ہیں یعنی لوگ قوم کی اصلاح کے لیے ہم سے کرایہ لے کر نکلتے تھے مگر واپس نہیں اتے تھے دراصل کرایہ بھی کچھ زیادہ لے جاتے تھے ایک صاحب تو تبلیغی جماعت والوں کی طرح ہم سے کینیڈا کا کرایہ طلب کر رہے تھے وہ تو کہیۓ کہ ہمیں فورا عقل اگئی اب ہم ایک ایسا طریقہ سوچ رہے تھے کہ ہمارے علاوہ باقی قوم کی اصلاح ہو جائے ہم نے خود کو اس لیے علیحدہ کر دیا کہ ہمارے پاس کچھ تھا ہی نہیں کہ ہماری اصلاح کی ضرورت ہوتی یہ بھی تھا کہ اصلاح کی تبلیغ کرنے میں پٹنے کا خدشہ نہ ہو جیسا بیچارے امن ماچ کرنے والوں کے ساتھ ہوا سنا ہے اس جلوس کے لوگ اب تک ایک دوسرے سے نہیں مل پائے ہیں

بہت سوچ کر زمین میں یہ ذہن میں ترکیب ائی کہ کسی طرح قوم کو لازمی فوجی تربیت کے لیے تیار کر لیا جائے لیفٹ رائٹ کرنے اور تنظیم کے عادی ہونے کے بعد ذہن میں کسی برائی کے آنے کا خدشہ نہیں رہے گا ظاہر ہے کہ جو فوجی ملک و وطن کے لیے جان دے سکتا ہے وہ رشوت جیسے چھوٹی چیز کو کب ذہن میں لائے گا ہم اس بات پہ مکمل یقین قائم کر لیتے اگر ہمیں یہ معلوم نہ ہوتا کہ متعدد ریٹائرڈ فوجیوں نے رشوت لی بھی اور ٹھاٹ سے لی منشيات میں بھی پکڑے گئے ہم ان کا نام اس لیے نہیں لیتے کہ اگر انہوں نے ہمارے منحنی جسم پہ رحم کھا کر ہاتھا پائی سے گریز کیا لیکن ہتک عزت کا دعوی کر دیا تو ہم کیا کریں گے ہم میں تو اتنا دم نہیں کہ ہم ان کی قیمت چکاتے پھریں اگر ہم عدالت میں کہہ بھی دیں کہ صاحب بڑے آدمیوں کی عزت کتنی ہی مرتبہ اتر جائے ضائع ہو یا بٹ جائے تو اس میں کوئی کمی نہیں آتی لیکن کیونکہ عزت وہ خزانہ ہے جو خالی نہیں ہوتا لیکن ممکن ہے عدالت نہ مانے اور اس کے عزت کی قیمت اپنی طرف سے مقرر کر دے اور ہمیں نیلام پہ چڑھا دے یہ بات بہرحال طے ہو گئی کہ آدمی بدھو ہو تو ڈسپلن اور تنظیم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے مسئلہ پھر اپنی جگہ پر رہ گیا

ہمارے ایک دوست ہیں قربان علی دانش جنہیں پیار سے ہم قربانی کہتے ہیں دانش ان کا تخلص ہے لیکن وہ شاعری نہیں کرتے تو بھی تخلص رکھنے پہ دفعہ تعزیرات نافذ نہیں ہوتی لیکن ان کا مسئلہ دوسرا ہے ان کا کہنا ہے کہ آدمی اس شے کی خواہش کرتا ہے جو کے پاس نہ ہو لہذا انہوں نے اپنا تخلص دانش رکھ لیا آدمی حقیقت پسند ہیں مشورہ کے لیے ان سے بہتر کون ہو سکتا ہے ملے تو کچھ جلدی میں تھے ہم نے روکنا چاہا تو رکے نہیں بلکہ یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ بیٹے کو اسکول میں داخل کرایا ہے فیس کا انتظام ہو گیا ہے رشوت کے لیے رقم لینے جا رہے ہیں

ہم نے سوچا کہ اگر کچھ نہیں ہو سکتا تو یونہی چلتا رہے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پھر ہم کیسے چلیں گے لہذا یہ طے کر لیا کہ خود بھی رشوت لینا شروع کردیں یہ فیصلہ بادل ناخواستہ کیا لیکن کم از کم اس کی خوشی کہ آئندہ رشوت دینے سے پریشان نہ ہوں گے ہمارے پاس آنے والے اپنی ہی کارپوریشن کے لوگ ہوتے ہیں لہذا پہلے ہی جو صاحب اپنے فائل کو جو کسی مشینری کے مرمت کے بارے میں تھی پوچھتے ہوئے آئے تو ہم نے ان سے رشوت طلب کر لی اتنے ہی رعب سے جواب ملا کہ مجھے جانتے نہیں میں ڈپٹی جنرل مینیجر ہوں ہم نے کہا بھائی کل تک تو تم کلرک تھے اج ڈی جی ایم کیسے ہو گئے کہنے لگے پہلے تو میں نے اینٹی ڈیٹ سینیارٹی
ہم نے انہیں بتایا کہ اس سے بھی زیادہ ڈپٹی مینیجر ہو جاتے ہیں یہ ڈی جی ایم کیسے ہو گئے جواب ملا پھر “ویری اسپیشل کیئر” کی پرچی کس دن کام آتی
ہم نے پوچھا اب تک کتنے ڈی جی ایم ہو گئے کہنے لگے ڈھائی سو تو ہو چکے ہیں باقی دو ہزار قطار میں لگے ہیں انشاءاللہ وہ بھی ہو جائیں گے اگلے سال تک اس ادارے کا نام پاکستان ڈی جی ایم ملز رکھ لیں گے تاکہ یہاں کی خالص پیداوار یہی ہے

ہم نے مشورہ دیا کہ اللہ تعالی کو ایک درخواست دے دو کہ تمہیں لیڈی ڈفرن (یہ ڈفر کی مادہ تھیں) اسپتال کے وی آئی پی وارڈ میں پیدا ہونا چاہیے تھا فرشتوں کی غلطی سے گولیمار کے خیراتی زچہ خانے میں پیدا ہو گئے تمہیں دوبارہ پیدا کیا جائے تاکہ تمہارا صحیح اسٹیٹس بحال ہوسکے
بات ہو رہی تھی رشوت کی سو ہم نے یاد دلایا کہ رشوت دو گے تو فائل نکلے گی بہت بگڑے کہ کارپوریشن کا کام ہے تمہیں رشوت مانگتے ہوئے شرم انی چاہیے وغیرہ ہم نے کہا پے رول میں تنخواہ لینے پر رشوت دینا ہوتی ہے آفس فرنیچر لاؤ تو رشوت دو ڈاکٹر کو دکھاؤ تو نسخہ میں تین دوائیں مریض کی ہوتی ہیں اور تین دوائیں ڈاکٹر کی اور ایڈمنسٹریشن میں تو ہم خود رشوت دے کے آ رہے ہیں اب بتاؤ اگر ہم رشوت نہ لیں تو رشوت دیں کہاں سے کہنے لگے کارپوریشن نے جو اپائنٹمنٹ لیٹر میں ہاؤس بلڈنگ ایڈوانس اور موٹر سائیکل ایڈوانس منظور کیا ہے وہ اسی مقصد کے لیے ہے اسی میں سے رشوت دو

ہم نے انہیں بتایا کہ جب ہم بھرتی ہوئے تھے اس وقت اپائنٹمنٹ لیٹر میں ان قرضوں کی منظوری نہیں لکھی ہوتی تھی بلکہ قرعہ اندازی ہوتی تھی لہذا ہمیں یہ قرضے غالبا” قرعہ اندازی کی خرابی کی وجہ سے نہیں ملے
ڈی جی ایم صاحب بہت سخت ناراض ہوئے جا کر ہمارے جی ایم یعنی جنرل مینیجر سے ہماری رشوت مانگنے کی شکایت کی ہم بھی پیچھے پیچھے پہنچ گئے کہ شاید ہماری ضرورت پڑے ہمارے جی ایم نے جواب دیا بھائی میں ایک دن میں دو مرتبہ نہیں پٹنا چاہتا ابھی ایک صاحب تین ماہ کی غیر حاضری کی تنخواہ لینے آئے تھے اب اپنے انہیں کچھ کہوں گا تو یونین کے لوگ آجائیں گے پھر ہاتھا پائی کر جائیں گے اور ہاتھا پائی انہیں کی طرف سے ہوتی ہے میں تو خاموش رہتا ہوں لہذا تم جانو اور یہ جانیں 

Add Your Heading Text Here

Scroll to Top