ہم +خبریں = ہائی بلڈ پریشر

تحریر – شاہد رضوی

ہمارے ایک دوست کا ذاتی تجربہ ہے اور ہم اس سے متفق ہیں کہ پاکستان میں ہائی بلڈ پریشر کا مرض کثرت سے ہونے کی وجہ ہمارے اخبارات ہیں ٹی وی کلینک کے ڈاکٹر تو وجوہات بتاتے وقت مصلحتا” وجہ نظر انداز کر گئے مگر ہم حق بات سردار کہنے کے عادی ہیں لہذا ڈنکے کی چوٹ پہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے دوست کے تجربے اور رائے سے اتنے ہی متفق ہیں جتنی وفاقی کونسل جو حکومت کی پالیسی سے (اتفاق رائے کی اس سے اعلی مثال آپ کو معلوم ہو تو مجھے بھی بتائیے گا)

ہمارے دوست کا تجربہ یہ ہے کہ اخبار پڑھنا- خبریں سننا- اخبار چھونا- سونگھنا بلکہ بعض مرتبہ اخبار والے کے پاس سے گزر جانے کی بنا پر بھی ہائی بلڈ پریشر ہو جاتا ہے یہ ان لوگوں کے لیے بھی تنبہیہ ہے جو اخبار کو پنکھے کی طرح جھلتے ہیں اس بات سے خدانخواستہ ہمارا یہ مطلب نہیں کہ اخباروں کو پانچ سال کے لیے بند کر دیا جائے کیونکہ اگر خبریں نہ ملیں تو بھی اختلاج قلب کے کافی امکانات ہیں ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ ایسی خبریں شائع نہ ہوں جن کے مابعد نتائج میں ہائ بلڈ پریشر شامل ہے ہوتا یہ ہے کہ خبروں کے ذریعے بلڈ پریشر آہستہ آہستہ بڑھتا رہتا ہے اور اپنے عروج پہ اس وقت پہنچتا ہے جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جوگی سے شیش ناگ کا مقابلہ ملتوی ہو گیا بلکہ جوگی بھاگ گیا اور اب جوگی کی بزدلی پر عوام الناس اپنا خون کھولاتے رہے اور اگر یہ خبر ہوتی کہ جوگی اور شیش ناگ میں مصالحت ہو گئی ہے تب بھی ہم ایک ٹھنڈی سانس بھر کے چپ ہو جاتے- لیکن جوگی کے بھاگ جانے سے اس کی بزدلی پر اتنا غصہ آیا کہ ہائی بلڈ پریشر ہو گیا یہ کمال ہمارے صحافی بھائیوں کا ہے کہ ایک شعبدہ باز کی سرگرمیوں کو اس طرح پیش کیا کہ یہ خبر لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی خیر صاحب شیش ناگ نہ بھاگا جوگی بھاگ گیا لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ مضمون کی سرخی لگا دی کہ “ہر نئی ایجاد اپنے ساتھ خطرہ لے کر آتی ہے” یعنی دیدہ دانستہ ہمیں ڈرا رہے ہیں کہ دیکھنا نئی ایجادات پر بھروسہ مت کرنا اس میں نئے نئے خطرات بھی ہیں تو وہ یہ ہے کہ ہم نہایت ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں اور ہے اور نئی ایجاد پر (جو ہمیشہ دوسروں کی ہوتی ہیں) فورا” ہاتھ ڈالتے ہیں خواہ وہ اجی نہ مو تو ہی کیوں نہ ہو اگر ہم اس سرخی کا اثر دل پر لے لیں تو آخری اسٹیج کی مایوس طاری ہو جائے کیونکہ اس سرخی میں یہ کہیں بھی نہیں لکھا ہے کہ ہر نئے خطرے سے بچاؤ کی جدوجہد بھی نئ ایجادات کو جنم دیتی ہے

ابھی کچھ دن پہلے ایک موقر روزنامہ میں کچھ مضامین شائع ہوئے ان میں ایک ہی بات دہرائی گئی کہ دہشت گردی بڑھ رہی ہے، جہاز اغوا ہو رہے ہیں، مصائب و آلام اتنے ہیں کہ ایک ڈاکٹر نے پورے خاندان کے ساتھ خود کشی کر لی (ملائشیا میں یا کہیں اور پاکستان میں ڈاکٹر دوسری قسم کے ہوتے ہیں) امریکہ نے امداد بند کرنے کی دھمکی دی ہے روس کے پاس آبدوزیں زیادہ ہو گئی ہیں بوبی سینڈرز کی موت بڑی اندوہناک تھی وغیرہ وغیرہ یہ مضمون پڑھ کے ہمیں حضرت عزرائیل کے آنے میں جو دیر ہو رہی تھی اس سے الجھن ہونے لگی کہ اگر حضرت عزرائیل دیر سے آئے تو نہ جانے ہمیں کیا کیا دیکھنا پڑے پھر خیال آیا کہ ہمارا یہ حال ہے تو صاحب مضمون تو یقننا” خود کشی کر چکے ہوں گے مگر معلوم ہوا کہ وہ بفضل تعالی بقید حیات ہیں

ہمارا کمال یہ ہے کہ اتنے ہیبت زدہ مضمون پڑھ کر بھی زندہ ہیں اور اس کے بعد اس سے بھی بری خبریں پڑھ چکے ہیں اور ایک سائنسدان نے فرما دیا کہ چند دن بعد دنیا اور ہم سب فنا ہونے والے ہیں کیونکہ سورج میں بہت بڑا طوفان آنے والا ہے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ پوچھا “کتنے دن بعد” کہنے لگے یہی چند کھرب سالوں کے بعد، ہماری تو نبضیں ہی چھوٹ گئی تھیں مگر بچ گئے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس میں خبر کا کمال تھا کہ سائنسدان کا- ابھی پسینہ خشک نہ ہوا تھا کہ ایک صاحب نے ہٹلر کو علیہ الرحمتہ بنانے کا اعلان کر دیا اور جواز یہ دیا کہ کروڑوں آدمیوں کو جنگ کی بھٹی میں جھونک کر ہٹلر نے آزادیء ہند کی مشکل حل کر دی چلیے صاحب ہٹلر کی بلکتی ہوئی روح کو کچھ تو قرار آجائے گا خواہ ہم سب کے روح اس بات پہ بلکنے لگے خطرہ یہ ہے کہ ایسے صاحبان کسی اور موقع کے لیے کسی اور کو ہٹلر نہ بنا دیں بڑی ظالمانہ ترغیب دے رہے ہیں

بعض خبریں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر ان پر مسکراہٹ کا عنوان دیکھ کر نہ پڑھا جائے تو آدمی خواہ مخواہ خلجان میں مبتلا ہو جاتا ہے ایک صاحب نے اعلان کر دیا کہ زمین ہرگز گول نہیں ہے بلکہ چپٹی ہے وہ صاحب ایک فلسفی ہیں اور فلسفیوں کی خرابی ہے کہ وہ دنیا کو جیسی اپنے خیالات میں پاتے ہیں ویسی بتاتے ہیں دنیا جیسی حقیقتا” ہے اسے ویسا ہی بتانے میں خاصی دقت ہوتی ہے فلسفہ کی ساری بنیاد منطق پر ہوتی ہے اور منطق وہ علم ہے جو آپ کو غیر موجود ثابت کر سکتا ہے خواہ آپ نفس نفیس پورے دو من بیس سیر کے وزن کے ساتھ موجود ہوں ہمارے ایسے ہی ایک منطقین نے جب اپنے وجود کو دنیا میں غیر موجود ثابت کر دیا تو ان کے گھر میں اچھا خاصا رونا پیٹنا پڑ گیا بچ گیا بڑی مشکل سے وہ گھر والوں کو یقین دلا سکے کہ وہ زندہ ہیں

بعض خبریں اتنی مرتبہ دہرائی جاتی ہیں اور اگر پھر بھی مجبورا” پوری خبر پڑھنا پڑے تو اختلاج ہونے لگتا ہے مثلا کئی عدد مسلم لیگیوں کے اتحاد کی خبر یا پھر ان لیگی رہنماؤں کے بیانات غالبا” تین سو تینتسویں اتحاد کی خبر حال ہی میں آئی ہے مسلم لیگیوں کے اس اتحاد پہ ہمیں مینڈرل صاحب اکثر یاد آتے ہیں جو تھے تو پادری لیکن گرجا کے باغ میں مختلف انواع کو ملا کر ایک نئی نسل پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور گرجا کے باغ کا ستیا ناس کرنے کے جرم میں نکالے گئے تھے شاید مسلم لیگیوں کے اتحاد سے ان کے تجربات کی تصدیق ہو جاۓ خیر صاحب غرض یہ ہے کہ ہم مرنے سے قطعی نہیں ڈرتے لیکن خدارا ہمیں ڈرا ڈرا کر تو نہ ماریے کچھ تو انسان دوستی اور انسانیت نوازی کا ثبوت دیجیے

Scroll to Top