پیپلز پارٹی اور آئی جے آئی کا موازنہ

تحریر – شاہد رضوی

ہمارے ایک دوست نے تنبہیا” رائے دی کہ ہم جو ہر وقت اپنے سیاسی طنزیوں میں جمہوریت جمہوریت کرتے رہتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس ملک میں فوج بھی ہے جس نے 25 سال مارشل لاء رکھا اور ایک صدر بھی ہے جو موج مرضی سے اسمبلی اور حکومت ختم کر دیتا ہے جس غریب نے تقریبا” 40 سال سرکاری ملازمت میں یس سر کہتے ہوئے گزار دیۓ اور اسے جمہوری رائے دینے کا کبھی موقع نہیں ملا وہ جمہوریت سے اپنے نچلے درجے کے سرکاری ملازم جیسا سلوک نہ کرے تو گا تو کیا کرے گا

اسلام میں پارلیمانی انتخابات کا کوئی تصور نہیں ہے لہذا الیکشن میں اپنی جیب سے پیسہ خرچ کرنا ناجائز ہے ہاں امیدوار بننے میں کوئی حرج نہیں- ان امیدواروں کی کفالت بیت المال سے کی جا سکتی ہے پنجاب حکومت نے تین ارب روپے اسٹیٹ بینک سے اوور ڈرافٹ بھی لے لیا ہے تاکہ اگر کوئی امیدوار دو کروڑ کا مطالبہ کرے تو اسے دیا جا سکے

ڈان جنگ میں روزانہ جہازی سائز کے چوتھائی کے برابر اشتہارات سے تین باتیں ظاہر ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ آئی جے آئی میں نواز شریف کے علاوہ کوئی نہیں ہے دوسرے یہ کہ نواز شریف شکست کے بدترین خطرے سے دوچار ہے تیسرے یہ کہ بیت المال کی رقم اگر کم ہو تو جہیز فنڈ وغیرہ کی رقم بھی موجود ہے

انتخابات تو ہونا ہے مجبوری ہے ان لوگوں کی بھی جو انتخابات نہیں کرانا چاہتے ان کی بھی مجبوری ہے جو خوش فہمی میں کھڑے ہو گئے تھے اور اب بوکھلا کر بیٹھنا چاہتے ہیں لیکن نہیں بیٹھ سکتے- ٹانگیں لرز رہی ہیں ہاتھ کانپ رہے ہیں لیکن بیٹھ نہیں سکتے جتوئی کے پسینے چھوٹ رہے ہیں نصر اللہ خان کے ہاتھ سے حقہ گر گیا ہے اور چنگاریاں شیروانی پر آرہی ہیں نواز شریف کو روزانہ اپنی فوٹو اخبار میں چھپوانا پڑتی ہے کہ مبادہ لوگ بھول گئے ہوں بیت المال کے اشتہار روز دینا پڑتے ہیں سیٹ کے لیے ولی خان کی محتاجی بڑھ رہی ہے مولانا فضل الرحمن اپنے دوستوں کی تلاش کرتے پھر رہے ہیں پروفیسر غفور دوبارہ اپنے مٹی خراب کرنے الیکشن میں کھڑے ہو گئے ہیں کیسے کیسے جغاوری رہنما ایک بے نظیر کے مقابلے میں کھڑے ہیں اور ایک کو بھی اپنے جیتنے کا یقین نہیں ہے صدر صاحب کی آشیرباد کے باوجود، انتظامیہ پر مکمل کنٹرول کے باوجود، گھٹیا ترین حربے اختیار کرنے کے باوجود سب ہاریں گے

وجہ آپ سے عرض کریں بے نظیر کے پاس پیپلز پارٹی ہے ان سب کے پاس کوئی پارٹی نہیں- بے نظیر کے پشت پناہ عوام ہیں ان کے پشت پناہ؟ پیپلز پارٹی میں عوام ہیں جتوئی کی این پی پی، نواز شریف کی مسلم لیگ، ولی خان کی اے این پی، نصر اللہ خان کی پی ڈی پی، پروفیسر غفور کی جماعت اسلامی، مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی یہ سب صدر سے جیکب لائن کے درمیان چلنے والے رکشے ہیں جن کی اصل سواری ان کا ڈرائیور ہوتا ہے مسافروں سے خالی رکشے جو صرف روڈ بلاک کر سکتے ہیں پیپلز پارٹی اپنے جلسے کرتی ہے ان کا جلسہ کبھی ایم کیو ایم والے کرا دیتے ہیں کبھی کسی محلے میں شادی کی تقریب ہو تو کارنر میٹنگ ہو جاتی ہے سیاست میں ہم نے بے وقوفوں کے اجتماع تو کئی دیکھے ہیں مگر ایسا مجمع نہیں دیکھا جیسے یہ ہیں- اپنی سیٹیں تو گئیں انہوں نے صدر صاحب کا عہد صدارت بھی خطرے میں ڈال دیا چلیں حیرت ہے کہ آئی جے آئی اور سی او پی مل کر اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ آصف زرداری کو سیاست میں گھسیٹ کے انہوں نے پیپلز پارٹی اور بے نظیر کو اور مضبوط کر دیا ایک سے ایک مظہر العجائب شخصیت ان میں موجود ہے نواز شریف گھبراہٹ میں سچ بول گئے کہ پیپلز پارٹی ایک سیلاب ہے اور آئی جے آئی یعنی نواز شریف بقلم خود اس کے آگے بندھ باندھنے کی کوشش کر رہے ہیں مولانا فضل الرحمن فرماتے ہیں کہ آئی جے آئی اور پیپلز پارٹی دونوں کا مقصد جمعیت علماۓء اسلام کو اسمبلی سے باہر رکھنا ہے مولانا کی بات سے تو یہی معنی نکلتے ہیں کہ پی پی پی اور آئی جے آئی خود اسمبلی میں جائیں یا نہ جائیں جے یو آئی کا بندہ نہیں جانے دیں گے جتوئی صاحب تو وہ ہر اس موضوع پہ بیان دے رہے ہیں جس پر بیان دینے سے ڈاکٹروں نے انہیں منع کیا ہوا ہے اس دیگ کا اندازہ اس ایک چاول سے لگا لیجیے جسے ضیاء عباس کہتے ہیں یہ رشتے میں جتوئی صاحب کے اسپیشل اسسٹنٹ ہوتے ہیں

موصوف کی رائے میں خلیج کا جو یہ بحران ہے یعنی عراق نے کویت پہ قبضہ اس لیے کیا ہے کہ پاکستان کو کمزور کیا جائے ایک بیگم عابدہ حسین ہیں جنہیں اہل پنجاب میڈم ٪63 کہتے ہیں یہ ووٹ پورے پاکستان کے نام پہ مانگتی ہیں لیکن دہائی پنجاب کی دیتی ہیں ان کی رائے میں سندھ کے لوگ خاص کر ہاری پنجاب کا استحصال کر رہے ہیں وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم ہمیشہ سندھ کا ہوتا ہے (گزشتہ تین وزیراعظم) ممکن ہے کہ ان خاتون کی تعصب بھری خوفناک آوازیں انہیں کچھ ووٹ دلوا دیں

Scroll to Top