پردہ زنگاری میں

تحریر – شاہد رضوی
قائم علی شاہ بہت اچھے آدمی ہیں ہم سے سلام دعا بھی ہے لیکن کئی مرتبہ استقبالیہ مجمع میں ہم نے ہاتھ ہلا کے خوش امدید کہا تھا تو قائم علی شاہ نے بھی ہماری طرف دیکھ کے ہاتھ ملایا تھا ممکن ہے وزیراعلی مجمع کی طرف دیکھ رہے ہوں لیکن ہم کو تو غرض صرف اپنے آپ سے ہے ان میں مروت بھی بہت ہے اور چونکہ جمہوریت پسند بھی ہیں لہذا ان کی شرافت دو آتشہ ہو گئی ہے ہم کو اگر اپنی کابینہ میں نہیں لیا تو اس سے ان کے شرافت پہ کوئی حرف نہیں آتا- بلکہ غالبا” ان کی شرافت مصدقہ ہو جاتی ہے ہمیں بھی شکایت نہیں ہے کہ ہم “کابینہ باہر” ہیں
کیونکہ اصل غلطی تو ہمارے علاقے کے عوام کی ہے جنہوں نے ہم کو انتخابات میں کھڑا نہیں ہونے دیا بلکہ ہم نے بیساکھیوں کے سہارے کھڑے ہونے کی کوشش کی تو زبردستی بٹھا دیا اور نامزدگی کے کاغذات بھی چھین لے گئے نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری سسرال کے حلقے سے امیر حیدر کاظمی جیت گئے اور جہاں ہم رہتے ہیں وہاں سے خواجہ محمد جیت گئے لوگوں کا اعتراض ہم پر یہ تھا کہ اگر ہم کھڑے ہو گئے تو کوئی اور کھڑا نہیں رہ سکے گا چونکہ ووٹروں سے ہمارے تعلقات نہیں ہیں اس لۓ ایک بھی ووٹر ووٹ نہیں ڈال سکے گا آخر جو لوگ پولیس کی تحویل میں تھانوں، جیل اور اسپتالوں میں ہوں ان کی نمائندگی کا حق تو پولیس کو ہے پولیس جس طرح مدد کرنے کا فرض نبھاتی ہے اس کی تصویریں تو اکثرشائع ہوتی رہتی ہیں اور بہترین اور صاف پرنٹ تو ابھی پنجاب نے شائع کۓ ہیں
دوسرا اعتراض جو بعد میں آیا یہ تھا کہ مانا کہ ہم سندھی ہیں لیکن فطرتا” تو ہمارا قبلہ وہ ہے جو نواز شریف کی کابینہ میں بیٹھا ہے ہم جتوئ صاحب کی مثال دیتے دیتے رک گئے کیونکہ جتوئ صاحب دو چہرے رکھتے ہیں جمہوریت کا غل مچاتے ہیں اور بندھے ہوئے ہیں آمریت کے کونٹے سے- شرافت کی سیاست کا راگ دیتے ہیں اور شریک ہو جاتے ہیں آئی جے آئی میں جہاں ہر تقریر پیپلز پارٹی کی خواتین رہنماؤں کو گالیاں دینے سے شروع ہوتی ہے کہتے ہیں کہ وہ پاکستان میں ہر جگہ سے کھڑے ہو سکتے ہیں لیکن جیتیں گے وہیں جہاں مصطفی کھر موجود ہوں
جتوئی صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ مصطفی کھر کی پناہ میں ہونے کی وجہ سے سندھ کی نمائندگی نہیں کرتے اور سندھی ہونے کی وجہ سے پنجاب کی نمائندگی نہیں کرتے
اور یہ جو ملا جلا کے حزب اختلاف کے لیڈر بن گۓ ہیں تو غالبا” یہی وجہ ہے کہ اسمبلی میں ہیں لیکن نمائندہ کہیں کے نہیں ہیں اور یہ جو ہم نے کمبائنڈ کا ترجمہ ملا جلا کیا ہے تو وجہ یہ ہے کہ آٹے میں لوہے کا برادہ متحد نہیں ہو سکتا خواہ آٹا امریکی گیہوں کا کیوں نہ ہو
بہرحال ہم تذکرہ کر رہے تھے اپنی ذات گرامی کا یعنی اپنی مثال ہم آپ ہیں پنجاب میں ہوتے تو پنجاب کی کابینہ میں سینیئر رکن ہوتے-داخلہ مرکز کی بیخ کنی۔ تخریب کاری۔ منشیات وغیرہ کے تمام شعبے ہمارے پاس ہوتے۔ ہم سندھ میں بغیر مسلح گارڈ کے دورے کرتے ہیں سرحد میں رقم لے کے جائے بغیر سب کام ہو جاتے دل جیتنا مشکل کام ہے لیکن لوگوں کا دماغ گرم کردینا اور خون کھولا دینا کیا مشکل ہے تو سوال یہ ہے کہ ہم اگر ایسے ہی مجاہد اعظم ہیں تو خاموش کیوں بیٹھے ہیں اور حزب اختلاف کے ساتھ کیوں نہیں ہیں ان دونوں سوالوں میں ہم دوسرے سوال کا جواب پہلے دینا چاہتے ہیں یعنی ہم حزب اختلاف میں کیوں نہیں ہیں دیکھئے صاحب ہم نے اربوں روپے کے قرضے لیے۔ کیوں لیے- یہ اس سے پوچھے جس نے اپنے باپ کا خزانہ سمجھ کر ديۓ- پھر معاف بھی کراۓ یا مرحوم صدر ضیاء سے پوچھيۓ کہ کیوں معاف کیے یہ راز کی بات آپ کو بتاتے ہیں کہ قرضے معاف اس شرط پہ ہوئے تھے کہ ہم پیپلز پارٹی کی حکومت کو صدر کی زندگی میں نہیں آنے دیں گے ہم اللہ تعالی کے احسان مند ہیں کہ اس ذات پاک نے ہماری بات کی لاج رکھ لی جو کچھ ہم کرتے ہیں ببانگ دہل کرتے ہیں
بزدلی ہماری آن کے خلاف ہے سلمان رشدی کا سہارا لے کر جلوس نہیں نکالتے اور جب جلوس نکالتے ہیں تو نکالتے ہی چلے جاتے ہیں منہ چھپا کر نہیں بیٹھتے
ہم اقبال کے شاہین کی طرح ہیں بدمعاشی کریں گے تو کھل کر یعنی شکار جھپٹے تو کھلے آسمان سے- مردار خور بھی نہیں ہیں جماعت اسلامی کی طرح کہ شکار پر ایک طرف لگا دیا افغان مجاہدین کو، دوسری طرف نواز شریف کو اور خود گدھ کی طرح آس میں لگا کر بیٹھ گئی ہم جھوٹ بولنے کو شان کے خلاف سمجھتے ہیں
ہم میاں محمد طفیل نہیں ہے کہ قائد اعظم پر اپنی سرپرستی کا بہتان رکھ دیں ویسے میاں محمد طفیل کی ایک بات ہمیں پسند ہے جھوٹ کتنا ہی بولیں شرماتے کبھی نہیں کہ شرماتا ہوا بڈھا ہمیشہ مضحکہ خیز لگتا ہے اور یہ جو میاں محمد طفیل قائد اعظم کا سہارا ڈھونڈ رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی لنگوٹی ایم کیو ایم والے سر بازار چھین لے گئے ہم دھوکہ دشمنوں کو دے سکتے ہیں دوستوں کو نہیں- ہم ایسے لوگوں میں بھی نہیں ہیں کہ دوستوں کی پیٹھ پیچھے دشمنوں سے ہاتھ ملا لیں اور وہ بھی مہر نامعلوم کی خاطر- مکاری ہمارے بس کی بات نہیں ہم اگر کسی کے خلاف ہیں تو بس ہیں ہم یہ نہیں کر سکتے کہ سائیں سائیں کرتے ہوۓ پیر چھوئیں اور ٹانگ گھسیٹ لیں یا معانقہ کرتے ہوئے پیٹ میں خنجر بھونک دیں
تلون مزاجی سے ہم چڑتے ہیں اگر کسی بات پہ موقف اپنا لیا تو سوچ سمجھ کر اپنا لیا پھر قائم اپنے ہم سمجھتے ہیں کہ وڈیروں ہم جیسے نودولتیوں اجارہ داروں کو امریکہ کی ضرورت ہے اور امریکہ کو پاکستان میں ہم جیسوں کی ضرورت ہے تو یہ دائیں بازو والے جو آئیں بائیں شائیں بکتے رہیں ہم اپنے موقف پر قائم ہیں
یہ باتیں ہم آپ سے اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ہماری سیاست کے کچھ اصول ہیں دوستوں کے ليے الگ دشمنوں کے ليے الگ – سیاست کا مقصد ہے جو واضح ہے نیت صاف ہے خلاف ہیں تو خلاف ہیں- ساتھ ہیں تو آخری سانس تک- اس حزب اختلاف کی نیت بھی جھوٹی ہے، زبان بھی جھوٹی، حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں وجہ یہ کہ خود حکومت میں نہیں ہیں لیکن کہتے یہ ہیں کہ حکومت ناکارہ ہے ناکارہ تو یہ لوگ ہیں جنہیں ڈھنگ سے جھوٹ بولنا بھی نہیں آتا
افواہ سازی پر بھروسہ بچکانہ حرکتیں- احمقانہ بیانات- ایسے ایسے مولانا اور غیر مولانا قسم کے لوگ منہ میں کف بغل میں چھری کبھی ڈرگ مافیا کے ایجنٹوں کو پناہ دیتے ہیں کبھی قاتلوں کی رہائی کے لیے جلسہ کرتے ہیں یہ سیاسی رسہ گیر یہ اس قابل نہیں کہ مجھ جیسا آدمی ان میں شامل ہو بھائی سیاست عوام کی ہو یا نہ ہؤ مگر دکھائی یہ دینا چاہیے کہ عوام کی سیاست ہے بلکہ اسی طرح جیسے یہ دکھائی دینا ضروری ہے کہ انصاف ہو رہا ہے خواہ ہو یا نہ ہو اگر یہ نہیں ہو سکتا تو آپ سیاست دان نہیں ہیں احمق ہیں اور اس پورے ٹولے کو ہم کیا کہیں- ننگی کیا نہائے گی کیا نچوڑے گی-
خیر جی ان کی عاقبت ان کے ساتھ- اب ہم آپ کو پہلے والے سوال کا جواب دیتے ہیں یعنی ہم خاموش کیوں ہیں یعنی سندھ کی سیاست کے حوالے سے تو صاحب ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ جو قائم علی شاہ کی دو آتشہ شرافت ہیں یہ جلدی مار کھا جائے گی
اور یا تو قائم علی شاہ شرافت سے دستبردار ہو جائیں گے اور جمہوریت کو ایک طرف رکھ کر ڈنڈا اٹھا لیں گے یا وزیراعلی کے کرسی چھوڑ کر وکالت پکڑ لیں گے کیونکہ صدر ضیاء کی ذریت- امریکی شیطان کے گرگے علیحدگی پسند راجہ مہاراجہ بننے کے خواب دیکھنے والے سندھی قوم میں انتہا پسندانہ قوم پرستی کا نعرہ دیکر تفرقہ ڈالنے والے- علی الا اعلان شہروں کا محاصرہ کرنے کا اعلان کرنے والے اور شہروں میں رہنے والے پلیجو، جی ایم سید، جیۓ سندھ، ایم کیو ایم سب کلاشنکوف بردار بے شتر ہیرو پن کے نشے میں غرق- نہ اپنا دیکھیں نہ پرایا خون بہانے سے غرض- پھر ڈاکے – اغوا – اور دیگر جرائم یہ بھلا قائم علی شاہ کے قابو میں آئیں گے
سندھ میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ کے سوا آواز نہیں- سولہ سولہ سال کے لڑکے بینک لوٹنے لگے ہم اس لیے خاموش ہیں کہ جو کچھ ہم کر سکتے ہیں اس سے زیادہ ہورہا ہے اور یہ کہ ایک شریف آدمی کے خلاف ہم کچھ نہیں کرنا نہیں چاہتے اس دوران ہمیں یہ بالکل یاد نہیں آیا کہ قائم علی شاہ کی انتظامی صلاحیت بھی کارگر تر اور یہ کہ شر کی تمام طاقتیں نیکی کو جنم دینے پر مجبور ہو جاتی ہیں لہذا آہستہ آہستہ یہ سب کم ہونا شروع ہوا بالکل ختم بھی ہو جائے گا لیکن اس وقت اور یہ بہت سے طاقتیں جن کا اور تذکرہ ہوا ہے باقی نہ رہیں گی اب جو حزب اختلاف والے غل مچائیں کہ سندھ کے حالات بہت زیادہ خراب ہو گئے تو اس میں سے ‘بہت زیادہ’ کا لفظ نکال دیجئے گا تاکہ جملہ میں سے جھوٹ نکل جائے
ہم جمہوریت کے تو خلاف ہیں اور خوش تھے کہ جمہوریت کا اصل فائدہ غیر جمہوری عناصر اٹھا رہے ہیں لیکن ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ جمہوریت کا جادو سر چڑھ کر بولے گا یعنی کمال ہے کہ اخبارات میں ایک دو کو چھوڑ کر سب مخالف- بیشتر اداروں کے سربراہ مخالف۔ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں نیم دلی سے احکام پر عمل کرنے والی مہنگائی۔ بےروزگاری الگ۔ اس کے باوجود بے نظیر کی حکومت آئین کا احترام اور جمہوریت قائم رکھنے میں کامیاب ہے اس کا مطلب ہے کہ عوام کے سیاست صرف دکھائی نہیں دے رہی ہے بلکہ آگے بھی بڑھ رہی ہے ہم بھی قائم علی شاہ کی دو آتشہ شرافت سے متاثر ہونے لگے ہیں بات تو حیرت کی ہے لیکن مجبوری ہے