مہنگائ - ترقی یافتہ ہونے کی علامت

تحریر – شاہد رضوی

میرے ایک دوست ہیں نام ہے ان کا مسکراہٹ حسین لیکن نام کے برعکس بڑے اعلی پائے کے رونے والے ہیں کبھی مہنگائی پر رو رہے ہیں کبھی دہشت گردی پر کبھی صحت و تعلیم کے مسائل پر رو رہے ہیں تو کبھی سیاست پر – ہر مسئلہ پر اتنے روہانسو ہو کر شکوہ کرتے ہیں کہ میں ڈر جاتا ہوں- ڈر یہ ہوتا ہے کہ اگر میں نے تسلی کے دو لفظ کہہ دیے تو کہیں ان کے آنسو نہ بہنا شروع ہو جائیں- مجھے معلوم ہے کہ انہیں ادا جعفری کا یہ شعر بہت پسند ہے
کچھ سوچ کے کہنا کہ ہمیں حرف تسلی

تازہ ہو اگر زخم تو پیکاں سا لگے ہیں

(ادا جعفری نے تو تازہ زخم کی شرط رکھی ہے لیکن اگر کوئی پرانے زخم پر ہی برا مان جائے تو ہم کیا کریں گے)

دوست ہمارے وہ اتنے گہرے ہیں کہ ہم بڑی فراخ دلی سے ایک دوسرے کے باپ دادا کو اپنے ذاتی برائیوں کے ضمن میں حوالے کے طور پر استعمال کرتے ہیں آج بھی وہ حسب معمول افطاری کا سامان لے کر ہمارے ساتھ بازار سے واپس آ رہے تھے کہنے لگے “یار حد ہو گئی ہے تربوز چھ روپے کلو یعنی یہ چار کلو کا تربوز 24 روپے کا دو کلو خربوزے 11 روپے کے اور یہ ایک درجن کیلے 12 روپے کے اور صرف 6 کینو لیۓ ہیں آٹھ روپے کے – 50 روپے ختم ہو گئے اور پتہ بھی نہیں چلا اللہ جانے یہ مہنگائی کہاں جائے گی کمر توڑے دے رہی ہے” ہم نے عرض کیا کہ محترم جو شخص ایک دن کی تین بندوں کی افطاری کے لیے چار کلو کا تربوز، ایک درجن کیلے، چھ کینو اور اتنے خربوزے لے کر جا رہا ہو اسے مہنگائی کے شکایت کرتے شرم آنی چاہیے  فورا” سامان کا ایک تھیلا مجھے پکڑاتے ہوئے پینترا بدلا کہنے لگے “یار میرا مطلب یہ تھا کہ پہلے وقتوں کے لحاظ سے مہنگائی کتنی بڑھ گئی ہے مجھے یاد ہے بچپن میں والد صاحب آٹھ دس تربوز لاتے تھے اور خربوزے ڈھیری کی شکل میں آتے تھے ہم نے فورا” ہی ان کا بھاری تھیلا ان کے حوالے کیا اور کہا کہ “تمہارے باپ چونگی ناکہ کے منشی تھے اور بیل گاڑی والے مفت دے جاتے تھے اگر خریدنا پڑتا تو اتنا بھی نہ لا پاتے جتنا تم آج لے جا رہے ہو”

اپنے والد کے بارے میں اس زریں حوالے کو نظر انداز کرتے ہوئے کچھ سوچ میں پڑ گئے پھر کہنے لگے “بات تو تم ٹھیک ہی کہہ رہے ہو- واقعی اگر اتنا ہی سستا زمانہ تھا تو لوگ ایسے پھل کیوں تلاش کرتے تھے کہ جب ایک دانہ سے پیٹ بھی بھر لیں پی بھی لیں اور ان کے گدھے کا پیٹ بھی بھر جائے یعنی یہ پہیلی جو تربوز کے بارے میں وجود میں ہی اس لیے آئی کہ لوگ زیادہ چیزیں خریدنے کے قابل نہیں تھے چیزیں تو سستی تھیں لیکن پیسہ اسی تناسب سے کم تھا لوگ فاقہ بھی کرتے تھے اور بھٹنڈہ سے آگرہ تک کا سفر کسی رسالدار کے پاس تین روپے ماہانہ کی سپاہ گری کرنے کے لیے بھی کرتے تھے” ہم نے تو یہ جملہ جس میں ان کے والد کا حوالہ تھا بات پہ بات رکھنے کو کہہ دیا تھا اور بغیر غور کیے کہہ دیا تھا لیکن اب جو غور کیا تو مہنگائی کے بارے میں متعدد نئے اسرار و رموز منکشف ہوئے

اب ہم دعوۓ سے کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگ مہنگائی کی شان میں گستاخی کرتے رہتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں اس کے خلاف جلوس نکالتے ہیں یا تو یہ نادانستہ حماقت کا شکار ہیں ورنہ دانستہ مہنگائی کو اپنے دوسرے درپردہ مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ہم پوچھتے ہیں کہ صاحب یہ مہنگائی ہے کیا؟ یہی نا کہ اشیا کی قیمتیں پہلے کے مقابلے میں بڑھ گئی ہیں پہلے سے مراد اگر اکبر اعظم کا عہد ہے تو یہ تقابل تو کھلی ہوئی دھاندلی ہے ہاں اگر مقابلہ پچھلے سال سے کریں تو جتنی قیمتیں بڑی ہیں اتنی ہی بازار میں کرنسی کی مقدار بڑھ گئی ہے ہمارے اس دعوے کی دلیل یہ ہے کہ پچھلے سال کریلے 12 روپے کلو تھے اور جتنے پیدا ہوئے تھے سب بک گئے تھے اس سال کریلے 18 روپے کلو ہیں اور جتنے مارکیٹ میں آتے ہیں سب بک جاتے ہیں- اگر بازار میں اتنی کرنسی نہیں ہے تو ان اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمت کہاں سے ادا ہوتی ہے تو بھائی اگر قیمتوں اور کرنسی کا وہی تناسب موجود ہے تو مہنگائی کہاں ہے؟

اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ اشیاء کے دام بڑھ گئے ہیں اور لوگ خرید نہیں رہے ہیں تو ایسی چیزوں کے دام اپنے آپ گر جائیں گے اور مہنگائی نہیں رہے گی ہم کوئی ماہر اقتصادیات تو نہیں ہیں لیکن جہاں تک ہمیں یاد ہے انٹر کی معاشیات میں ہم نے پڑھا یہی تھا کہ بازار میں کچھ ایسا ہی ہوتا ہے

فرض کیجیے ہم مہنگائی کی تعریف یوں کریں کہ چیزیں تو بہت سے بنائی جائیں لیکن ان کی قیمت نہ بڑھے تو گویا مہنگائی نہ ہوگی یہ منطق دشمن منطق ہو گی لیکن خیر پھر بھی غور کر لیتے ہیں ایک موٹی سی مثال لے لیتے ہیں پہلے ایم اے کی ڈگری کی قیمت کالج کی پڑھائی +محنت +فیس ہوتی تھی تو جو اسے بازار میں خریدتا تھا اس کے بدلے کچھ افسری وغیرہ دیتا تھا اج ایم اے کی ڈگری پاکستان کی ہر یونیورسٹی میں وہ کاتب دے دیتا ہے جس کے پاس ڈگری کے سادے فارم رکھے ہوں اور وہ بھی نہایت سستا لہذا اس ڈگری کا معاوضہ بازار میں فروٹ منڈی کی منشی گیری ہے جہاں فروٹ چوری کر کے تنخواہ پورا کرنا پڑتی ہے سول اور مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری اس سے بھی سستی ہے لہذا لوگ ٹھیکیدار کو ان سے زیادہ پیسے دیتے ہیں
یعنی ڈگریاں زیادہ بنتی ہیں زیادہ سستی بنتی ہیں لہذا ان کا معاوضہ بھی اتنا ہی کم ہو جاتا ہے یعنی پھر وہی تناسب کا مسئلہ اگر ان کی قیمت اسی طرح گھٹتی رہی تو روز صبح اخبار والا’ اخبار میں ایک ڈگری رکھ کر پھینک جایا کرے گا

اس بات سے ہم دل سے متفق ہیں کہ چیزیں زیادہ سے زیادہ بننا چاہیے خواہ ان کی قیمت میں کتنا ہی اضافہ ہو کیونکہ ہم جو ہر سال چار لاکھ نور نظر لخت جگر پیدا کر لیتے ہیں ان کے لیے اضافی پیداوار تو چاہیے لیکن پیداوار کیسے بڑھے کلاشنکوف والے ہٹیں تو بڑھیں- نہ وہ ہٹیں گے نہ پیداوار بڑھے گی

اچھا یوں تو کہا جا سکتا ہے کہ مزدور کا معاوضہ بہت کم ہوتا ہے لہذا ان کے لیے مہنگائی ہے مشکل یہ ہے کہ بعض مفکرین اسلامی مزدوروں کو صرف مسلمان گنتے ہیں مزدور نہیں لہذا ہر معاملے میں برابری کا درجہ دیتے ہیں سوائے معاوضہ کے- بعض مفکرین کے خیال میں مزدور طبقہ موجود ہی نہیں ہے لہذا اس کے بارے میں غور کرنا وقت ضائع کرنا ہے بعض سیاسی عمائدین کے خیال میں مزدوروں کے لیے مہنگائی کا حل یہ ہے کہ ان کی تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کر دی جائے اگر کسی صدارتی فرمان کے ذریعے ایسا کر بھی دیا جائے تو عملا” اس کے پیچھے کون سے معاشی قوانین ہوں گے ایک تولہ سونے کے برابر آٹھ گھنٹے کی پیداواری محنت کا یا ایک خاندان کی اشیاء ضرورت کا تعلق کیسے متعین ہوگا سونے کی اپنی الگ منڈی ہے بازار میں تو یہ تعلق بنتا نہیں ہاں اگر اللہ چاہے تو وہ قادر مطلق ہے یقینا کچھ نہ کچھ ہو جائے گا یہ ہم مانتے ہیں کہ صنعتی مزدوروں کے ایک حصہ کے لیے مہنگائی موجود ہے لیکن انہیں نہ کسی کی رحم دلی کوئی دلاسکتی ہے نہ حکومت کے فراخ دلی ان کے راستے تو الگ ہیں

رہی بات کہ پروفیسر غفور، اصغر خان، معراج محمد خان، اعزاز نذیر، جام ساقی وغیرہ کس مہنگائی کی بات کرتے ہیں تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ سیاسی مہنگائی ہے عوام کے ذہنوں میں مہنگائی کا ایک بھوت بٹھانا ہے ہر تقریب اس جملے سے شروع ہوتی ہے کہ عوام مہنگائی سے پریشان ہیں اور ختم اس پر ہوتی ہے کہ عوام مہنگائی سے سخت پریشان ہے ان دونوں جملوں کے بیچ میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا ان جملوں سے قطعی تعلق نہیں ہوتا عوام ان تقاریر کا اتنا شدید تاثر لیتے ہیں کہ جلسے کے بعد گھر جاتے ہوئے دو کلو تلی ہوئی مچھلی بحساب 40 روپے فی کلو لیتے جاتے ہیں

تو جان برادر مہنگائی کہاں ہے؟ فروٹ اور سبزی کی دکانیں صبح پٹی ہوئی ہوتی ہیں شام کو خالی- کپڑا مارکیٹیں بے تحاشہ بن رہی ہیں اور سب کی سیل اتنی ہے کہ ہر دکاندار کار رکھتا ہے کرانہ کی دکان تو عروج آدم خاکی کی انتہا ہے اور یہ جو پبلک کا سیل رواں ہے تمام خس و خاشاک بہا لے جاتا ہے اور لعل و گوہر ہر دکاندار کے لیے چھوڑ جاتا ہے

لہذا ہم ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی کا نام و نشان نہیں ہے بلکہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ مہنگائی نہیں ہے کیونکہ اگر مہنگائی ہوتی تو ملک کا وقار دوبالا ہو جاتا یہ مہنگائی کا مثبت پہلو ہے جتنی زیادہ مہنگائی ہوتی ہے اتنا ہی وہ معاشرہ ترقی یافتہ کہلاتا ہے امریکہ میں کریلے 15 ڈالر فی کلو یعنی پاکستانی ساڑھے450 روپے کلو ہیں لہذا امریکہ پاکستان سے 450 گنا زیادہ تر ترقی یافتہ ہے ہالینڈ میں گوشت یہاں سے 60 گنا مہنگا ہے اس حساب سے ہالینڈ کا معاشرہ ترقی یافتہ ہے ہم تو درخواست کریں گے کہ ملک کا وقار بڑھانے کے لیے اس سستے نسخے پہ عمل کیا جائے

Scroll to Top