تاریخ واردات مختلف - مقصد ایک

تحریر – شاہد رضوی

تاریخ میں دو نام یادگار رہیں گے بچہ سقہ اور نواز شریف – طریقہ واردات دونوں کا مختلف ہے لیکن مقصد ایک ہے کہ یعنی ملک کی اقتصادی صورتحال کو تباہ کرنا دونوں اس بات کے قائل ہیں کہ ملک میں کچھ رہے یا نہ رہے تاریخ میں ان کا نام ضرور رہنا چاہیے اس کے لیے نیک نامی بھی کوئی ضروری شرط نہیں ہے اس قدر مماثلت ان میں موجود ہیں کہ ہم تو ہم تاریخ بھی حیران ہے بچہ سقہ نے ایک دن حکومت کی ہے اس وقت کے مقابلے میں افراط زر کی شرح کو پیش نظر رکھیے تو نواز شریف کے 100 دن کے برابر ہے بچہ سقہ نے مغل بادشاہ کی جان بچائی تھی نواز شریف نے صدر اسحاق کی بات کی لاج رکھی ہے صدر صاحب نے کہا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کے کفن دفن کا انتظام کر چکے ہیں نواز شریف نے اسے پورا کر دکھایا

بچہ سقہ نے اپنی برادری کے فائدے کے لیے چمڑے کے سکے رائج کر دیے تھے نواز شریف نے مسلم کمرشل بینک بیچا اور اتنا سستا کہ چمڑے کے سکوں کے عوض بیچا بقیہ اثاثے بھی بیچنے کا ارادہ تھا لیکن لوگوں نے مزاحمت شروع کر دی صدر صاحب بھی ناراض ہو گئے نواز شریف نے اجلال حیدر کو نکال دیا بیوروکریسی بھی ناراض، ایم کیو ایم والے بھی ناراض کہ ایجنسی نے ان کے چیف کو قتل کرنے کے سازش کی لاحول ولا قوۃ میں کچھ کہہ رہا تھا موضوع سے بھٹک گیا دراصل ہماری پوری سیاست بچہ سقہ کی وراثت معلوم ہوتی ہے یعنی ایک دن کی سیاست ہے جتنا فائدہ اٹھانا ہے آج اٹھا لو آج جو اقتدار میں ہے وہ اللہ تعالی کا سایہ ہے جو اقتدار سے باہر ہے وہ شیطان ہے اور جہنمی ہے جمہوریت وہ ہے جو آج حاکم کہتا ہے پولیس اور سی آئ اے کا کام جھوٹے مقدمے بنانا، بے گناہ لوگوں کو گرفتار کرنا، امن و امان کے نام پہ حکمرانوں کا دبدبہ قائم کرنا ہے آج جتنے قرضے لے سکتے ہو لے لو جتنے معاف کرا سکتے ہو معاف کرا لو دوست انھیں بناؤ جو امداد دے سکیں دشمن انہیں بناؤ جن کی دشمنی بہانے سے یعنی بڑے سے بڑا دفاعی بجٹ رکھ سکو خواہ یہ بجٹ کل ملک کو کھا جائے

 دنیا سائنسی و تیکنیکی انقلاب کی طرف جا رہی ہے تم روزانہ زیادہ سے زیادہ زور ملک کو زرعی بنانے اور زمینداروں کی آقائیت برقرار رکھنے پر دو- سعودی عرب کے پردے میں اسرائیل کی حمایت کرو کیونکہ امریکہ کی مشرق وسطی کی سیاست میں اسرائیل بہت اہم ہے اور ہمارے لیے امریکہ مجنوں لیلی سے زیادہ سگ لیلی کا عاشق معلوم ہوتا ہے ساری سیاست، سارری معاشیت، ساری سماجی پالیسیاں سب آج کے لیے ہیں کیونکہ کل پتہ نہیں یہ ملک رہے یا نہ رہے- اسے بہتر ہے کہ ایم سی بی سیفائر گروپ کو دیدو واپڈا کے شیئر توکل گروپ کے ہاتھ بیچ دو، اسٹیل ملز نواز شریف برادران کو دے دو تاکہ ان کی حیثیت ٹاٹا اور برلا جتنی تو ہو جائے پاکستان کا کیا ہے اللہ مالک ہے

بچہ سقہ کی سیاست کا ایک اور لازمی حصہ یہ ہے کہ سیاست شخصیات کی سیاست ہے سیاست لیڈروں کی آپس کے چپقلش، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور نقصان پہنچانے کا نام ہے اور لیڈر بھی وہ جن کے پاس کوئی سوچ، کوئی نظریہ، ملک کے مستقبل کے لیے کوئی پالیسی کچھ بھی نہیں ہے ہمیں یاد نہیں کہ سیاست دانوں نے کبھی تعلیمی زرعی یا اور کسی مسئلہ پہ عوام کو مطمئن کرنے والا نتائج اور عواقب کا جائزہ لینے والا بیان دیا ہو ہاں وائس چانسلر کا سیاسی بنیادوں پر تبادلہ کوئی مشکل بات نہیں ہے پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے تاریخ نہیں صرف جغرافیہ ہے

بات ہو رہی تھی میاں نواز شریف کی وہ آج کل ہر شے کو ڈی نیشنلائز کر رہے ہیں مثلا” جمہوریت کو اس طرح ڈی نیشنلائز کیا کہ گدھے گھوڑوں کے دام اور گھوڑے اسمبلی ممبروں کے دام بکنے لگے نمبردار جمہوریت کے نام سے نیا نظام وضع ہوا جمہوری آزادیوں کا نیا فلسفہ رائج ہوا کہ جمہوری آزادیاں آزاد لوگوں کو نہیں دی جاتیں بلکہ جمہوری آزادی کا حق صرف جیل میں بند لوگوں کو ہے پہلے جیل جایے پھر جمہوری آزادی کا مطالبہ کیجیے لطیفہ یہ ہے کہ بینظیر بھی اعلان کر رہی ہیں کہ وہ اس جمہوریت کی حمایت کرتی ہیں اسے کہتے ہیں یک نہ شد دوشد نواز شریف کی جمہوریت مارشل لاء کا راستہ صاف کر رہی ہے اس کی حمایت آٹھویں ترمیم کے حمایت ہے دنیا میں اگر جمہوریت کی کوئی مثال نہ ہو تب بھی اس کفن پوش جمہوریت کی ضرور حمایت کیجئے نواز شریف بینکوں کو ڈی نیشنلائز کر رہے ہیں بینکوں کا قصور یہ ہے کہ منافع دے رہے ہیں خریدنے والا بینکوں کا منافع دیکھ کے خرید رہا ہے تجارت کے لیے خرید رہا ہے صنعتوں سے الرجک ہے ورنہ 88 کروڑ روپے میں بینک خریدنے کے بجائے بجلی پیدا کرنے کا یونٹ لگاتا حکومت جھوٹ بولنے میں مصروف ہے اسے ڈی نیشنلائزیشن کہتے ہیں
بچہ سقہ زندہ باد- نواز شریف زندہ باد

Scroll to Top