اونٹنی پر بیٹھی چیختی دہاڑتی تین من وزن کی آبنوس رنگ لیلی

مجنوں کی بینائی اتنی کمزور تھی کہ وہ لیلی کے کتے کی دم اور لیلی کے باپ کے مونچھوں میں فرق نہیں کر سکتا تھا

تحریر – شاہد رضوی

لیلیء اقتدار کا تصور کر رہا تھا کہ لیلی کا خیال آگیا اور ساتھ میں فارسی کا وہ مشہور مصرعہ یاد آیا جس کے معنی ہیں کہ لیلی کو مجنوں کی آنکھ سے دیکھو

یہ سوچ کر دیکھیں لیلی مجنوں کی آنکھ سے کیسے نظر آئے گی ہم چشم تصور میں پہلے چشم مجنوں لائے اور پھر دیکھنے کی کوشش کی- ہمیں تو لیلی کہیں نظر نہ آئی قصور چشم مجنوں کا تھا یا ناقص و غیر متوازن غذا کا کہ مجنوں کی بینائی اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ ایک گز دور کی چیز نظر نہیں آتی تھی لیلی کہاں دکھائی دیتی جو اگر محمل میں بھی فرض کر لی جائے تو کم از کم چھ سے آٹھ گز دور ہو گئ

 ہمیں مجنوں پر بڑا ترس آیا کہ غریب اس کمزور بینائی کے ساتھ کتنے عرصے زندہ رہا اور اف نہ کی اس کے ساتھ ہی ہمیں یاد آیا کہ تاریخ نے مجنوں کے سلسلے میں کیسی بھیانک غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے مثلا” یہ کہ مجنوں کبھی لیلی کے کتے کو لیلی سمجھ لیتا تھا اور کبھی لیلی کے باپ کو یہ باتیں اس کے جذبۂ صادق کے تحت لکھی گئی ہیں جبکہ یہ واقعات اس کی بینائی کی خرابی کا نتیجہ تھے یعنی اسے پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ لیلی کا کتا کون سا ہے اور لیلی کا باپ کا کون سا

اس کی نظر میں کتے کی دم اور باپ کی مونچھیں دونوں برابر تھیں مونچھیں ہاتھ میں آ جاتیں تو انہیں چمکارنے لگتا اور دم ہاتھ میں آجاتی تو اسی سے لیلی کا رشتہ مانگنے لگتا

یہ یقین ہم کو بھی ہے کہ تھا آن والا آدمی جب اس نے ایک دفعہ ہائے لیلی کہا ہوگا تو یقینا کچھ لوگوں نے اسے سمجھایا ہوگا کہ میاں کس چکر میں پڑے ہوئے لیلی تو اتنی کالی ہے کہ دن میں بھی روشنی کا دھبہ نظر آتی ہے اور رات میں تو نظر ہی نہیں آتی اور یقیننا” مجنوں یہ بات سمجھ بھی گیا ہوگا لیکن وضع سے پھرنا خلاف مردانگی سمجھ کر ہمیشہ کے لیے ایک بات پہ اڑ گیا ممکن ہے کہ اسے یہ خوف بھی ہو کہ اگر اس غلطی سے بچ گئے تو آئندہ اس سے بڑی غلطی یعنی شادی نہ کرنی پڑی جاۓ جو ظاہر ہے کہ زیادہ بھیانک ہوتی-

یہ جو تاریخ میں لکھا ہے کہ وہ ناقہ لیلی کے آس پاس پایا جاتا تھا تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اسے ناقہ لیلی دکھائی دیتا تھا غالبا اس کے سونگنے حس اسے ہمیشہ ناقہ کے پیچھے رکھتی تھی عافیت بھی پیچھے رہنے ہی میں تھی اور جو روایتیں ہیں کہ وہ اس چیز سے لپٹ جاتا تھا جس میں لیلی کی خوشبو ہوتی تھی یہ کچھ مشکوک سی ہیں کیونکہ تاریخ میں ہے کہ جب بھی وہ لیلی کہہ کر لپٹا ہے تو لیلی کی خادمہ سے ہی لپٹا ہے جس نے ہمیشہ اس پنجر پر دوہتر مارا ہے یہ لپٹنا جذبہ صادق کی دلیل نہیں ہے اونٹ کی ٹانگوں سے لپٹتا تو ہم اس کا جذبہ سچا سمجھتے

چشم مجنوں سے لیلی کو دیکھنے کی کوشش ناکام ہوئی لیکن ایک بات بڑی عجیب معلوم ہوئی کہ چشم مجنوں سے لیلی کی خادمہ بالکل صاف نظر آرہی تھی شاید مجنوں کا جذبہ صادق بھی اسی طرف ہو بہرحال لیلی سے وہ کہیں بہتر تھی مجنوں کی بینائی کا یہ حال دیکھ کر ہم نے اپنے چشم تصور پر زور دیا تو نظر یہ آیا کہ ایک خاتون جو حادثات زمانہ کی وجہ سے انتہائی فربہ ہیں نہایت سیاہ ہیں ایک اونٹنی کی پیٹھ پر بیٹھی چیخ رہی ہیں کہ کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو- ان خاتون کے چیخ تو عربی زبان میں تھی لیکن ہمیں اردو میں سنائی دی

ہم نے فورا” یہ اندازہ لگا لیا کہ ان محترمہ کا نام نامی لیلی ہے لیکن یہ اندازہ نہ لگا سکے کہ ان کی چیخ بیساختہ تھی یا سیاسی- یعنی وہ واقعی مجنوں کی جان بچانا چاہتی تھی یا اس چیخ کے ذریعہ عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنا چاہتی تھیں جو اس وقت بھی پتھر لۓ کھڑے ہیں اور تازہ خبریں آنے تک پتھر لیے سڑک پر موجود ہیں

 بہرحال ہم زیادہ دیر تک لیلی کو نہ دیکھ سکے کیونکہ اول تو وہ نامحرم تھی دوسرے یہ کہ ہم اس زمانے میں ذی الحج کے چاند کی تلاش پہ مقرر کیے گئے تھے اور چاند کی تلاش کے لیے تو بمشکل پہلی سے دس ذی الحج تک کا وقت ہمیں دیا گیا تھا اتنے کم وقت میں تو رویت ہلال کمیٹی نے انکار کر دیا تھا لہذا قرعہ فال بنام من دیوانہ زوندا

جتنی دیر ہم نے لیلی کو دیکھا اس میں یہی نظر آیا کہ ہجوم اور بھیڑ بھاڑ سے لیلی بھی تنگ تھی اور ہجوم کو سخت ناپسند کرتی تھی زیادہ آدمی ہونے کی وجہ سے تو بجلی کمپنی کی کارکردگی ستیاناس ہو کر رہ گئی لیلی کا تو بہرحال عشق کا معاملہ تھا جو خراب ہونا تھا اور ہجوم کی وجہ سے ہوا

اس زمانے میں پولیس تو تھی نہیں جو ہجوم پر لاٹھی چارج کرتی اسے منتشر کرتی سنا یہ کہ اسی ہجوم کے ہاتھوں لیلی کا چھوٹا بھائی بھی مارا گیا تھا لیکن تین صدیوں تک لیلی کے قبیلے والے قاتلوں کو تلاش کرتے رہے آخر جب قاتل نہیں ملے تو ایک راہگیر کو پھانسی چڑھا کر مطمئن ہو گئے- دروغ برگردن راوی کے ہمارے یہاں پولیس نے بھرتی ہونے کی لازمی شرط یہ رکھی کہ بندہ لیلی کے قبیلے سے ہو

جب چشم تصور تھک گئی تو ہم پھر لیلیء اقتدار کے بارے میں سوچنے لگ گئے تب ہم پر ایکاایکی یہ انکشاف ہوا کہ اس قصے میں ہمارے لیے بھی بڑی عبرت ہے ہماری بھی بینائی اتنی کمزور ہے کہ لیلی کے کتے اور لیلی کے باپ میں فرق نہیں کر سکتے ہم بھی اتنے محتاط ہیں کہ ہمیشہ لیلی کے اونٹ کے پیچھے رہتے ہیں آگے نہیں آتے ہمارا جذبہ صادق ہمیشہ لیلی کی خادمہ کی طرف راغب رہتا ہے اور یہ کہ عوام ہمارے انتظار میں سڑک پہ پتھر لیے کھڑے ہیں اس مماثلت پہ کسی کو افسوس ہو تو ہو ہمیں تو فخر ہے کہ مجنوں جیسے مشہور اور نام آور شخص کی اتنی صفات ہم میں موجود ہیں

 

Scroll to Top