آزادی اور جمہوریت کا محافظ مزدور

منافع کی بنیاد استحصال کے بجائے پیداوار ہونی چاہیے

تحریر- شاہد رضوی

جمہوریت کو تحفظ اور صحیح خطوط پر فروغ پانے کے لیے مزدور طبقہ روح رواں کی حیثیت رکھتا ہے یہ وہی طبقہ ہے جو حکومت اور سرمایہ دار افسر شاہی اور استحصالی طبقوں کے رویہ کو متوازن رکھ سکتا ہے اب جب کہ ملک میں جمہوریت بحال ہوئی ہے تو استحصالی طبقہ چاہتا ہے کہ جمہوریت کو اپنے مفاد میں استعمال کیا جائے حکومت کی ضرورت پیداوار میں اضافہ ہے جو آجروں کی مرہون منت ہو کر رہ گئی ہے حالانکہ پیداوار میں اضافہ مزدوروں کے محنت اور لگن سے زیادہ وابستہ ہے آجروں کا رویہ یہ ہو گیا ہے کہ وہ ٹیکس چوری کرنے ٹیکس بچانے اور ٹیکس میں چھوٹ اور معافی کے مطالبات کر کے اپنے منافع کی بنیاد بناتے ہیں حالانکہ منافع کی بنیاد صرف اور صرف پیداوار میں اضافہ ہی بن سکتی ہے مگر آجر مزدور جو پیداوار بڑھا سکتا ہے اس کا استحصال کرنا بھی منافع شمار کرتا ہے ان خیالات کے پیش نظر آج مزدور طبقے کی سرگرمیوں کے حسب ذیل مقاصد سامنے آئے ہیں

مزدور طبقے کے حقوق کی جدوجہد
ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اور سامراجی وابستگی کے خلاف جدوجہد
صنعتی ترقی اور جاگیرداری باقیات کی جدوجہد

مزدور طبقے کی جدوجہد کے یہ تینوں مقاصد اپنے اندرونی تعلق کی حد تک تشریح طلب ہیں پہلے نقطے میں معاشی مانگوں، حالات کار میں بہتری، بہتر مزدور قوانین جن میں آزادی تحریر و تقریر اجتماع غیر مشروط حق ہڑتال انتظامیہ میں اور منافع میں حصہ مزدور عورتوں کی مساوی اجرت اور خصوصی چھٹیوں کے حقوق وغیرہ شامل ہیں ان حقوق کے حصول کے لیے ٹریڈ یونین تنظیموں کی مکمل آزادی، مزدور تنظیموں میں سرکاری مداخلت کا خاتمہ سرکاری ایجنسیوں مثلا پولیس محکمہ محنت وغیرہ کا سرمایہ داروں کے حق میں مداخلت کرنے کا خاتمہ ضروری ہے

مزدور طبقہ معاشی مانگوں کی جدوجہد کے ذریعے صورتحال کی بتدریج اپنے حق میں تبدیلی اور طبقاتی شعور کے پختگی سے سیاسی تبدیلی یعنی سماج کی انقلابی تبدیلی کی طرف جاتا ہے اور یہ عمل قطعی فطری ہوتا ہے لیکن آج کی صورتحال میں جبکہ ایک جمہوری حکومت برسر اقتدار ائی ہے ( 11 سال کے مارشل لاء کے دور کے بعد) اور مزدور طبقے کی جدوجہد کی آزادی کی ضمانت دے رہی ہے اور سر پہ ابھی تک فوجی جنتا کی تلوار کا سایہ پڑ رہا ہے مزدور طبقے کے لیے اپنی جمہوری آزادی اٹھانا ہے اور جمعہ مزدور طبقے کے لیے اپنی جمہوری آزادی اور ساتھ ہی ساتھ پورے ملک میں جمہوریت کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھانا ہے لہذا مزدور طبقہ کی جدوجہد کی حدود یہ ہیں کہ جمہوریت کو زک پہنچائے بغیر اپنے حقوق کی لڑائی لڑے اور اپنی سیاسی لڑائیوں کے لیے اس طرح تیاری کرے کہ مناسب وقت آنے پہ تنظیم طبقات شعور سے مسلح اور تیار ہو اور یہ بڑا کٹھن راستہ ہے کیونکہ سرمایہ دار جمہوریت اور حب وطن کا مطلب اندھا دھند منافع کمانے کے آزادی اور بلا روک ٹوک استحصال کو سمجھتا ہے ان تمام مسائل میں جو اس وقت ملک کو درپیش ہیں اہم ترین مسئلہ پیداوار کا ہے صنعتی ترقی اور زرعی پیداوار کے راستے سے رکاوٹیں دور کرنا ہے ملک کے بیشتر مسائل کے حل کا دارومدار صرف اس پر ہے۔ بےروزگاری میں کمی، تجارت میں اضافہ، عام لوگوں کے معیار زندگی میں اضافہ، سروسز شعبے کا پھیلاؤ اس میں لوگوں کی کھپت، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ مضبوط معاشی بنیادوں پر استوار ملکی پالیسیاں جمہوری عمل کی مضبوطی وغیرہ – مزدور طبقہ اس رخ کو سامنے رکھتا ہے اور اہمیت دیتا ہے لیکن اس عمل میں صرف مزدور طبقہ ہی اکیلا فریق میں ہی ہے اس میں دو اہم فریق اور بھی ہیں یعنی سرمایہ دار طبقہ اور حکومت – لہذا اس سے پہلے کہ ہم مزدور طبقے کا رویہ طے کریں یہ دیکھنا پڑے گا کہ ملک کی ترقی کے اس عمل کو سرمایہ دار طبقہ کتنی اہمیت دیتا ہے اور حکومت اور سرمایہ دار مزدور طبقے کے ساتھ کیا رویہ رکھتے ہیں

جمہوری حکومتیں جو ضمانتیں فراہم کر رہی ہیں ان کی بنا پہ سرمایہ دار طبقہ صنعتی ترقی کے عمل میں حصہ لینے پہ امادہ ہوا ہے لیکن اپنے مطالبات میں اج بھی وہ بلا روک ٹو استحصال اور لوٹ کے آزادی چاہتا ہے ایک طرف تو وہ حکومت پرٹیکس میں جھوٹ بلکہ معافی کا مطالبہ کرتا ہے ٹیکسوں میں چوری اور کالے دھن کو آزادانہ برقرار رکھنا چاہتا ہے دوسری طرف یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس کے مزدوروں کے تعلق میں قانون کا کوئی عمل دخل نہ ہو مزدوروں کی برطرفی اور رکھنے نہ رکھنے کا مکمل اختیار ٹھیکہ داری سسٹم – مزدور تنظیموں و مزدوروں کے حقوق سے مکمل چھٹکارا چاہتا ہے ہمارا سرمایہ دار اسے ثابت کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں – سرمایہ دار کا کوئی وطن نہیں ہوتا اور ہمارا سرمایہ دار اسے ثابت کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے

جمہوری حکومت نے اب تک مزدوروں سے متعلق جو فیصلے کۓ ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مزدوروں کو ایک طبقے کی حیثیت میں تسلیم کر تی ہے اور انہیں اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی ازادیاں فراہم کرنے کے ضمانت دیتی ہے ٹریڈ یونینوں کی بحالی ایک ایسا ہی قدم ہے

حکومت نے اپنی لیبر پالیسی کا اعلان نہیں کیا لیکن یہ واضح ہے کہ حکومت کو سرمایہ دار اور مزدور طبقے کے درمیان توازن پیدا کرنا پڑے گا تاکہ ترقیاتی عمل میں رکاوٹ نہ پڑے حکومت کو یہ بات بھی نظر میں رکھنا ہوگی کہ آجر اور اجیر کے درمیان تعلقات میں وسیع بگاڑ سے صرف رجعت پسند عوام دشمن طاقتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں

حکومت کو ایک طرف تو یہ کوشش کرنا ہوگی کہ مزدوروں کا استحصال ختم ہو جائے مزدوروں کی اجرتوں کا تعین اشیاء کی حقیقی قیمتوں اور باعزت زندگی کے وسائل کے توازن پر کیا جائے اور اسے کم سے کم اجرت تصور کیا جائے مزدوروں کے حالات کار بہتر بنائے جائیں مزدوروں کی بستیوں کو شہری سہولتیں فراہم کرنے کے علاوہ بہتر رہائشی تعمیر کے لیے قرضے دئے جائیں تمام مزدوروں کا آجر کے خرچ پہ بیمہ اور پینشن کا نفاذ کیا جائے

دوسری طرف سرمایہ دار طبقے کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مزدور طبقہ صنعتی پیداواری عمل کا انتہائی طاقتور زندہ عنصر ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا نہ ہی اس کی اہمیت کم کی جا سکتی ہے منافع کی بنیاد مزدوروں کے استحصال کے بجائے پیداوار میں اضافہ پہ رکھی جائے
حکومت اس طرح پیداواری عمل کی دو طاقتوں کے درمیان کھڑی ہے لہذا یہ لازمی ہے کہ حکومت ان دونوں فریقوں سے زیادہ طاقتور ہو تاکہ ایک طرف تو سرمایہ داروں سے مزدور قوانین پر سختی سے عمل کرا سکے اور دوسری طرف مزدور تنظیموں میں انتہا پسندی کے رحجانات کو روک سکے اور مزدور تنظیموں کو مرکزیت حاصل کرنے کی طرف راغب کر سکے

حکومت کے ایما اور ثالثی پر ہی یہ ممکن ہے کہ مزدور فیڈریشنوں اور آجروں کی تنظیموں کے درمیان قابل عمل سمجھوتے ہوسکیں اور حکومت ایک موثر مصالحت کنندہ کا کردار ادا کرسکے

ملک میں جمہوریت کو جو خطرات پیش آسکتے ہیں ان کے لیے بھی مزدور طبقہ کی مضبوط تنظیم بہت ضروری ہے بھٹو کا تجربہ ہمارے سامنے ہے کہ مزدور طبقہ کو اپنے سے بیگانہ کر لینے کے نتیجے میں شدید نقصان اٹھانا پڑا مزدور طبقہ کو اس کی طبقاتی حیثیت میں سیاست میں لانا بہت ضروری ہے اس کو لائے بغیر مختلف طبقوں کے درمیان توازن قائم کرنا بہت مشکل ہوگا زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مزدور طبقہ ہی اس جمہوریت کا قابل اعتماد پشت پناہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ سماجی طور پر یہ واحد طبقہ ہے جو دلیر بھی ہے مستقل مزاج بھی اور عوام کی رہنمائی کی صلاحیت بھی رکھتا ہے یہ ضروری ہے کہ مزدور طبقے کے سیاسی پارٹی کو کام کرنے کی آزادی حاصل ہو تاکہ مزدور طبقے کے طبقاتی حیثیت میں سیاسی تنظیم کاری ہو سکے جمہوریت کو مضبوط کرنے کا عمل جمہوریت دشمنوں کے خلاف کھڑے ہوئے بغیر ممکن نہیں اس مضبوط امکان کے باوجود کے موجودہ جمہوریت کو لوٹایا نہیں جا سکے گا ملک کے اندر کچھ ایسے عناصر ابھی طاقت رکھتے ہیں جن کی خواہش یہ ہے کہ جمہوریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے ورنہ پھر فرسودہ استحصال طبقات کے حق میں استعمال کیا جائے ایسی شکست خوردہ سیاسی جماعتیں جن کی سیاست کا انحصار سازشوں مذہب منافرت لسانی ہنگامہ صوبائیت اور دوغلے موقف اختیار کرنے پر ہے اس وقت بھی جمہوریت دشمنوں اور صوبوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے امن و امان کے مسائل پیدا کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں جمہوریت کے خلاف ان سازشوں کو محض سیاسی عمل سے نہیں روکا جا سکتا اس کے لیے جمہوریت کے سب سے مضبوط محافظ یعنی مزدور طبقہ کے بہترین تنظیم کاری لازمی شرط ہے جو عوام کے وسیع حصوں کے ساتھ مل کے سیاسی عمل کی پشت پناہی کرے مثال کے طور پہ منظم مزدور طبقہ صوبائیت کے نعرے کے خلاف مضبوط محاذ ہوتا ہے جس کا مظاہرہ اکثر یونینوں کے ریفرنڈم میں ہوا اور تمام مزدور تنظیموں کی ہدایت اس کا واضح ثبوت ہے مزدور طبقے کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے اور متعدد بعض رکاوٹیں بھی دور کرنا ہوں گی جو ان سے براہ راست تعلق نہیں مثلا جاگیرداری باقیات کا خاتمہ اور موثر زرعی اصلاحات – ملک کے اندر ایک ڈھانچے کے فراہمی اور سوشلسٹ ممالک کی مدد سے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی صنعتی ترقی ملک میں سائنسی نظام تعلیم اور تیکنیکی تعلیم کی عام فراہمی میں نئی ٹیکنالوجی اور ایسے مسائل جن سے جن سے پورے سماج کے مفادات وابستہ ہیں

مارچ 1، 1989 روزنامہ امن

Scroll to Top