
تعارف
یہی شرط عاشقی ہے ہو عزیز تر وہ بازی
جسے ہار کر بھی جیتے، جسے جیت کر بھی ہارے
نام شاہد رضوی’ پورا نام شاہد مسیح رضوی ‘ والد سید عابد مسیح رضوی المشہدی (مشہد کا تذکرہ اس لیے کہ ‘مسیح ‘ کا خطاب طبابت کے سلسلے میں آباؤاجداد میں کسی کو ملا تھا) پیدائش 31 دسمبر 1933، لکھنؤ – یوپی- انڈیا- تعلیم بی اے کراچی- 14 سال کی عمر سے بائیں بازو کی ترقی پسند تحریک سے منسلک رہے ساری زندگی اسی وابستگی میں گزار دی- آج بھی ذہن سائنسی سوشلزم اور کمیونزم سے وابستہ ہے- شاید یہ کوائف کافی ہیں
اس کتاب کو چھپوانے کا مقصد یہ ہے کہ جو کچھ لکھا ہے اس قابل ہے کہ اسے آج کے ذخیرہ ادب کی امانت سمجھ کر اس میں شامل کر دیا جائے زمانہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے یہ اس کا کام ہے
چند باتیں اپنے نظریہ زندگی اور نظریہ شعر کے بارے میں’ میں انسان کی تخلیق کے سائنسی نظریے کا قائل ہوں انسان کو تاریخ کی حرکی قوت اور کائنات کی ایسی طاقت سمجھتا ہوں جس کے آگے کائنات اپنے سارے راز کھول رہی ہے کائنات مسلسل رواں ہے اور نئے نئے روپ اختیار کرتی جا رہی ہے اور انسان اس سے صرف چند قدم پیچھے، آگے بڑھ رہا ہے انسان اور کائنات کے تعلق کا یہ نظریہ میری فکر کی بنیاد ہے کائنات کے حسن سے انسان کا رشتہ ناقابل شکست ہے انسان نے کائنات کو حسین تر بنا دیا ہے اس عمل میں انسان نے خود کو بھی حسین تر بنا لیا ہے زندگی جو فطرت کے قوانین کے تحت پیدا ہوئی انسانی عمل سے مستحکم ہوتی جا رہی ہے تمام انسانی جذبے کسی نہ کسی طرح قوت تخلیق کے مظاہر ہیں
نظریہ شعر یہ ہے کہ شعر انسان کے تہذیبی جذبوں کو سنوارنے’ کائنات اور انسان کے درمیان شعور کی رو کو گہرا کرنے، انسان کو انسان سے متعارف کرانے، تزئین حسن عام کرنے اور شعور حسن عام کرنے کا ذریعہ ہے
میں اس کتاب کے چھپوانے میں اپنی بیٹی رعنا رضوی کا شکر گزار ہوں جس کی ہمت اور اعانت سے یہ کتاب چھپ سکی میں ان تمام دوستوں کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے ہمت افزائی فرمائی
شاہد رضوی
30/10/1996

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
اوجھا سینی ٹوریم کی تنہائی میں جہاں میں گزشتہ ڈھائی سال سے زندگی اور موت کی کشمکش میں ہوں کامریڈ شاہد سے بچھڑنے کی قطعی غیر متوقع اور اندوہناک خبر نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ شاہد جیسا وفادار کامریڈ اس طرح بغیر ملے، بغیر بتائے رخصت ہو جائے گا اور وہ بھی ہمیشہ کے لیے
کیوں گئے تنہا اب رہو تنہا کوئی دن اور
یقین نہیں آتا کہ شاہد جیسا باغ و بہار کمیونسٹ ہر تکلیف ہر مصیبت کو قہقے میں اڑا دینے والا اس طرح ایکا ایکی موت سے شکست کھا جائے گا
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس! تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
ہاں! دیوانوں میں سے ایک اور دیوانہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا کچھ عرصہ پہلے کامریڈ اقبال خان کی وفات کی خبر آئی تھی اور اب عزیز ترین رفیق شاہد رضوی کی- شاہد اس پراگندہ طبع عشق پیشہ دیوانوں کے قبیلے کا فرد تھا جو تلاش حسن کے لیے ہمہ تن خود کو وقف کر دیتے ہیں جو زندگی کے حسن سچائی اور زندگی دشمن قوتوں کے خلاف جدوجہد کو اپنا ایمان اور آدرش بنا لیتے ہیں ایسے دیوانے عاشق اب نایاب ہوتے جا رہے ہیں جو اپنا سب کچھ ایک مقصد کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں جو دل و جان سے اس کے لیے لگے رہتے ہیں کامریڈ شاہد سے میری ملاقات 1956ء میں حیدرآباد میں ہوئی تھی جہاں مجھے کراچی سے کمیونسٹ پارٹی نے منتخب کیا تھا وہ بڑا عجیب و غریب زمانہ تھا 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی غیر قانونی قرار دی جا چکی تھی حکومت کا تشدد اپنے عروج پر تھا سی آئی ڈی اور دوسری خفیہ ایجنسیاں مستقل ہمارا پیچھا کرتی رہتی تھیں اس کے باوجود پارٹی کے ساتھی یہ دیوانے یہ پراگندہ طبع لوگ بغیر کسی پرواہ کے حکومت کے مظالم کو نظر میں نہ لاتے ہوئے اس کے چیلنج کا مقابلہ کرتے تھے وہ جدوجہد میں انسانی زندگی اور خیر کی جدوجہد کے لیے انسانیت کے لیے محنت کش طبقے کی آزادی کی جدوجہد کے لیے دل و جان سے لگے ہوئے تھے باوجود اس کے کہ اس زمانے میں حالات بے حد خراب تھے پارٹی کی مالی حالت بھی بہت کمزور تھی پیشہ ور انقلابیوں کو ویجز بھی بہت کم ملتے تھے اس کے باوجود ان ساتھیوں کا جوش اور جذبہ ان ساتھیوں کی لگن ان کی جدوجہد کا جوش اپنے عروج پر تھا دن رات وہ حکومت کی ایجنسیوں کے تمام ہتھکنڈوں کا مذاق اڑاتے اور پھر اپنے کام میں لگ جاتے تھے
اسی عجیب و غریب زمانے میں کامریڈ شاہد رضوی اور کامریڈ شمیم واسطی دو ساتھی دو رفیق دو دوست حیدرآباد میں ٹریڈ یونین کی جان تھے شاہد ناٹے سے قد کے دبلے پتلے خوبصورت خدوخال چمکدار روشن آنکھیں اور ہر لمحہ ہونٹوں پر مسکراہٹ بات بات میں فقرے لطیفے گویا زندگی کی سختیوں کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے وہ سختیوں اور تکلیفوں کا مذاق اڑانے والے لوگوں میں سے تھا ان کو ہنسی میں ٹال دینے والے لوگوں میں سے تھا انہیں صرف ایک ہی لگن تھی اور وہ تھی محنت کش طبقے کی آزادی کی جدوجہد کی – شاہد ایک پڑھے لکھے اور باشعور نوجوان تھے جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو پہلے ہی دن ہم بے تکلف دوست بن گئے شاہد اور شمیم دونوں کی آپس میں بہت بنتی تھی دونوں ہی بہت فقرے باز و بذلہ سنج تھے شاہد چونکہ پڑھے لکھے زیادہ تھے باشعور تھے ان کے فقروں میں لطیفوں میں گہرائی اور خوبصورتی ہوتی تھی اکھڑ پن نہیں ہوتا تھا وہ بات سے بات نکالنا جانتا تھا یہ دونوں ساتھی ایک دوسرے کے ساتھ ایسے رہتے تھے کہ لوگ انھیں یاجوج ماجوج کہتے تھے یہ دن اور رات جدوجہد میں لگے رہتے تھے
حالانکہ اس زمانے میں 1957ء میں مارشل لاء لگا ہوا تھا وہ ٹرانسپورٹ ٹیکسٹائل اور دوسری فیکٹریوں کے مزدوروں کو منظم کرنے میں ہر وقت کوشاں رہتے تھے کچھ سالوں کے بعد شاہد چھٹی لے کے خیرپور چلے گئے اور انہوں نے شادی کر لی کچھ عرصے کے لیے ہمارا رابطہ ٹوٹ گیا لیکن وہ خاموش نہیں بیٹھے وہ جہاں بھی رہے پارٹی سے ان کا تعلق قائم رہا خیرپور میں بھی انہوں نے پارٹی سے رابطہ نہیں توڑا بلکہ مستقل تعلق قائم رکھا ساتھی کارکنوں کے ساتھ مل کر مشورے دیتے رہے کام کرتے رہے چھ ماہ بعد سکھر میں میرا شاہد سے دوبارہ رابطہ ہوا ان کی بڑی خوبیوں میں سے ایک یہ تھی کہ انہوں نے زندگی میں کبھی پارٹی سے اپنے کاز سے اپنے ساتھیوں سے بے وفائی نہیں کی وہ ایک باوفا باشعور اور درد مند ساتھی تھے جس کے دل میں ساری انسانیت کا ساری دنیا کے محنت کشوں کا ساری دنیا کے مظلوموں کا درد تھا وہ ان کے لیے تڑپ جاتے تھے اور یہی وہ جذبہ تھا جس کی وجہ سے وہ تمام ساتھیوں میں بے حد مقبول تھے اور تمام ساتھی ان سے بہت محبت کرتے تھے
میں پھر کہوں گا کہ شاہد ان عشق پیشہ دیوانوں کے قبیلے کا فرد تھا جو تلاش حسن کے لیے زندگی کے حسن کے لیے خود کو وقف کر دیتے ہیں زندگی کے حسن سچائی اور زندگی دشمن قوتوں کے خلاف جدوجہد کو اپنا ایمان اور آدرش بنا لیتے ہیں ایسے دیوانے عاشق اب نایاب ہوتے جا رہے ہیں آج جب میں اپنے چاروں طرف دیکھتا ہوں تو مجھے ایسے ساتھی کم ملتے ہیں جنہوں نے اس طرح سے اپنی زندگی کو کسی آدرش کے لیے ہمہ تن جدوجہد میں لگا دیا ہو آج جب کہ حالات خصوصا” سویت یونین کے بکھر جانے کے بعد جس طرح کنفیوژن پھیلا ہے اچھے اچھے کامریڈ اور دوست جو کل تک بہت آگے بڑھے ہوئے تھے وہ پیچھے ہٹ گئے اور کنفیوژن کا شکار ہو گئے اور ان کی وفاداریاں متزلزل ہو گئیں کامریڈ شاہد کے ہاں اونچ نیچ تو آتی رہی مگر نہ تو خود ان کا سوشلزم پر سے یقین اٹھا اور نہ ہی محنت کش عوام کی جدوجہد سے ان کا رشتہ کبھی ٹوٹا یہ ان کی بڑی خصوصیت تھی کہ وہ وقتی طور پر کبھی کبھی ڈھیلے پڑے لیکن اس کے باوجود پارٹی سے ان کی وفاداری مقصد سے ان کے لگن و وابستگی کبھی کم نہیں ہوئی چاہے وہ جیل کے اندر رہے ہوں یا جیل سے باہر انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے قلم کے ذریعے اس جدوجہد کو جاری رکھا
وہ ناقابل شکست کمیونسٹ تھا اس نے اپنے مقصد کے لیے چومکھی لڑائی لڑی قلم سے بھی اور روز مرۂ کے مزدور طبقے کی جدوجہد کے ذریعے بھی وہ ٹریڈ یونین کا کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ کالم نویس مضمون نگار اور شاعر بھی تھا اس نے اپنی شاعری اپنے فکاہیہ و طنزیہ مضامین کے ذریعے قلم کے ذریعے بھی جہاد کیا شاہد کا عشق زندگی کے حسن سے محنت کش عوام کی جدوجہد سے لامحدود تھا یہ ہر چیز میں چھلکتا تھا اور اس کی شاعری میں بھی جھلکتا ہے زندگی کے حسن کو وہ ہر جگہ تلاش کرتا تھا کچھ لوگ اسے شاید اس کے کمزوری سمجھیں یا اس کی قوت اسے بچوں سے بے حد پیار تھا بچے اس کے کمزوری تھے وہ سمجھتے تھے کہ یہ ہمارا مستقبل ہے ان کی شاعری میں بچوں پر کئی خوبصورت نظمیں ہیں ان کا درد مند دل تھا جو عوام کے خلاف ہونے والی ہر زیادتی کو محسوس کرتا تھا پٹ فیڈر کے کسانوں کی جدوجہد ہو یا ملتان کے مزدوروں کی جدوجہد وہ ہر جدوجہد کو اپنی جدوجہد سمجھتے ہوئے قلم کے ذریعے اپنی آواز بلند کرتا ہے وہ کبھی خاموش نہیں بیٹھتا پٹ فیڈر کے کسان ہوں فلسطین کے مجاہد ہوں ویتنام ہو یا ملتان کے شہید ہوں سب اس کے ساتھی ہیں اس کے دوست ہیں اس کے رفیق ہیں جہاں جہاں بھی عوام کی جدوجہد جاری تھی اور ہے شاہد نے ان کے بارے میں لکھا ان کی جدوجہد میں اپنی آواز شامل کی اپنے قلم سے اپنی جدوجہد سےبرابر ہر جدوجہد میں شریک رہا
کامریڈ شاہد نے اپنی اولاد کو مخلص کمیونسٹ کی تربیت بھی دی اس نے باپ کے ساتھ اپنی اولاد کو اپنا رفیق و ساتھی بھی بنایا اس نے پارٹی اور محنت کش عوام کی جدوجہد کو اولیت دی باوجود اس کے کہ لوگ عام طریقے سے اپنی جدوجہد میں اپنے اولاد کو اور اپنے گھر والوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں اس نے ایسا کبھی نہیں کیا وہ ایک سچا کمیونسٹ تھا سچا دوست تھا سچا رفیق تھا
کامریڈ شاہد ایک انتہائی درد مند دل رکھنے والے باغی ذہن کے کامریڈ تھے ہر ظلم ہر تشدد عوام کے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی پر ان کا دل تڑپتا تھا جہاں جہاں بھی تشدد ہو زیادتی و ظلم ہو وہ اس کے خلاف سراپا احتجاج تھے خواہ وہ ترنم عزیز کا واقعہ ہو یا کہیں اور دہشت گردی کا وہ خصوصیت کے ساتھ جرم نا انصافی تشدد اور ہتھیاروں کی سیاست سے متنفر تھے وہ اپنے قلم کے ذریعے ان کے خلاف سراپا احتجاج تھے ان کی نظمیں ترنم عزیز اور ایک دیوانہ جو مر ہی گیا خوبصورت سراپا احتجاج اور سراپا درد سے بھری ہوئی ہیں شاہد کو اپنے ساتھیوں سے بے تحاشہ محبت تھی کامریڈ حسن ناصر اور نظیر عباسی ان کے لیے بغاوت اجتجاج اور انقلاب کے سمبل تھے وہ طاقت کے بھی سمبل تھے وہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ حسن ناصر نے اپنی جان دے دی لیکن اپنے کاز اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹا نظیر عباسی نے اپنی جان دے دے لیکن ظلم کے مقابلے میں نہیں جھکا یہ تھا ان کی نظموں اور غزلوں کا نچوڑ – شاہد کی نظموں اور غزلوں کو پڑھنے والا ان کے خلوص ان کی سچائی ان کے آدرش سے بندھن ان کے انسانی مستقبل پر یقین سے منکر نہیں ہو سکتا جن کا عکس ان کی شاعری میں ملتا ہے مجھے یقین ہے جو لوگ ان کی نظموں اور غزلوں کو پڑھیں گے ان کی شاعری سے ان کے آدرش سے متاثر ہوں گے ان کے کلام کی اشاعت سے ان کا مقصد زندہ رہے گاموت نے مجھ سے ایک انتہائی پیارا دوست پارٹی سے ایک مخلص کمیونسٹ چھین لیا ہے شاہد جیسے انسان کو موت مار نہیں سکتی وہ موت سے بہت زیادہ قوی ہوتے ہیں
کامریڈ شاہد جیسے لوگ بظاہر مر جاتے ہیں لیکن وہ مرا نہیں کرتے وہ ساتھیوں کے دلوں میں اپنے کلام کے ذریعہ اپنے عمل کے ذریعہ جو انہوں نے اپنے مقصد کے لیے کیا ہے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے پارٹی کے ساتھ ان کے گہرے بندھن تھے پارٹی کا جو ابھی نیا آئین بنا تھا اس کا مسودہ ان ہی نے لکھا تھا جو کانگریس میں پاس ہوا اور اس کو
Defend
کرنے کے لیے بھی انہی کو بلایا گیا تھا
کامریڈ شاہد کا پارٹی سے سوشلزم سے رشتہ اندھی عقیدت کا رشتہ نہیں تھا وہ رشتہ شعور کا تھا منطق کا تھا سائنس کا تھا اندھے عقیدے کے ساتھ شاہد نے سوشلزم کو قبول نہیں کیا تھا اس لیے سوویت یونین کے زوال کا ان پر اتنا اثر نہیں ہوا جتنا ان لوگوں پر ہوا جنہوں نے اسے عقیدہ بنایا ہوا تھا اور وہ یہ بات جانتے تھے کہ ایک ماڈل ٹوٹا ہے 10 ماڈل اور پیدا ہوں گے وہ جانتے تھے کہ سوشلزم ناکام نہیں ہوا غلطیوں کی سزا ملی ہے انہیں یہ یقین تھا کہ سرمایہ داری کا بحران کم نہیں ہوگا یہ بڑھتا ہی جائے گا اور بڑھتا ہی جا رہا ہے انہیں یہ بھی یقین تھا کہ وہ قوتیں جو اس کی وجہ سے بکھر گئی ہیں ایک مرتبہ پھر منظم ہوں گی اس لۓ کہ مزدور طبقے کی جدوجہد طبقاتی جدوجہد جاری ہے اور جاری رہے گی جب تک کہ ایک ایسا سماج وجود میں نہیں آجائے جو کہ خوبصورت ہو جس میں سب کو برابر سے حقوق ملیں اور وہ صرف سوشلزم اور کمیونزم سے ہی ممکن ہے
امام علی نازش
چیرمین
کمیونسٹ مزدور کسان پارٹی