جمہوریت کا راگ بند نہ ہو تو بانسری ہی کیوں نہ توڑ دی جائے

ریگن صاحب کے قدم رنجہ فرمانے کی وجہ؟ آپ کا قیاس کیا ہے؟ پسند کرلیجیے
تحریر – شاہد رضوی
ہے خبر گرم کے غالب کے اڑیں گے پرزے! کیونکہ صدر ریگن پاکستان کی زمین پر جلد از جلد قدم رنجہ فرمانے والے ہیں کیوں آ رہے ہیں اس کی وجہ کا اعلان نہیں ہوا اور ہوگا بھی نہیں کیونکہ اکثر نہیں ہوتا
ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کسی نے دعوت دی ہے یا صدر ریگن نے کسی دعوت کا انتظار غیر ضروری سمجھ کر اپنا پروگرام یہاں بھیجوا دیا
بہرحال جب کوئی شخص کہیں جاتا ہے تو اسے کوئی کام ہوتا ہے اور جب بہت جلدی جاتا ہے تو بہت ضروری کام ہوتا ہے مثلا” اگر صدر ریگن تیزی سے اسٹیشن کی طرف جاتے نظر آئیں تو یقینا ان کی گاڑی نکلنے والی ہوگی
پاکستان کی طرف دوڑ لگانے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان ہاتھ سے نکلنے والا ہے
خیر تو ہم یہ عرض کر رہے تھے کہ چونکہ ان کی آمد کے واضح مقاصد ہمیں معلوم نہیں اس لیے صرف قیاس پر ہی بھروسہ کیا جا سکتا ہے ویسے ہم خط کا مضمون (وہ خط جو ہمارے نام نہ ہو) ڈاکیۓ سے پوچھ لیتے ہیں اور امریکہ سے تو اب یوں بھی خط کم آتے ہیں ڈاکیۓ وہ بھی وفود کی شکل میں بہت زیادہ بلکہ بہت زیادہ آتے ہیں
بہرحال ہمارے قیاسات کچھ یہ ہیں کہ ممکن ہے کہ ریگن ذاتی طور پر بہت پریشان ہو لہذا تفریح کو نکل پڑے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ریگن پاکستان کے بارے میں پریشان ہو لہذا ادھر کا رخ کیا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ چونکہ لیبیا یہاں سے زیادہ قریب ہے اس لیے یہاں سے لیبیا پر اپنے بحری اور ہوائی بیڑے کا حملہ دیکھنا چاہتے ہوں
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایران کے کسی لیڈر سے خفیہ ملاقات فرمائیں کیونکہ ایران آج کل پاکستان پہ بہت زیادہ مہربان ہے یعنی ندیم دوست سے بوئے دوست آ رہی ہے یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کو سمجھائیں کہ اسرائیل کو تسلیم کر لو آخر حرکتیں بھی ایک جیسی ہی ہیں اور وہ بھی پاکستان کی موجودہ حکومت کی طرح امریکہ کا یار وفادار ہے
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پاس پڑوس کے ملکوں کو دھمکی دینے آ رہے ہوں کہ دیکھو ہم یہاں آسکتے ہیں تو اگے بھی جا سکتے ہیں
یہ بھی امکان کہ جب راجیو گاندھی کو جتانے آ رہے ہوں کہ راجیو پڑوس میں ہونے کے باوجود سال بھر کی کوشیشوں کے باوجود پاکستان نہ آ سکا اور ہم یعنی صدر ريگن جب جی چاہا ٹہلتے ہوئے چلے آئے
یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں جمہوریت جمہوریت چلانے والوں کو بتا دیں کہ ابھی تو اپنے ملک کی فوج سے واسطہ پڑا ہے ہم یہاں آسکتے ہیں تو پھر ہماری فوج بھی یہاں آسکتی ہے پاکستان کی حیثیت ہی کیا ہے یہ کوئی ویتنام یا لبنان تو نہیں کہ امریکی فوج کا نام سن کرہی پسینے آجائیں
یہ سارے قیاسات نذر قارئین ہیں اور ان کے جملہ حقوق آزاد ہیں جس قاری کو جو قیاس پسند آجائے بڑے شوق سے اس پہ سوچے ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا
اچھا یہ بھی تو ممکن ہے کہ سارے قیاسات صحیح ہوں ٹھیريۓ صاحب ۔ ہم سامنے کی بات تو بھول ہی گۓ یعنی جو قیاس نہیں حقیقت ہے ریگن صاحب کے اتنی گھبراہٹ میں آنے کی وجہ افغانستان اور روس ہیں – ہمیں کسی نے بتایا ہے کہ ایک جماعت نے کراچی سے کالج اور یونیورسٹی کے ڈھائی ہزار پٹھان طلبہ کو افغانستان میں مجاہدین کے ساتھ شامل ہو کر لڑنے کے لیے بھرتی کیا ہے خبر کی سچائی یہ ہے کہ ہمیں خود بھی دو تین لڑکوں کے جانے کا افسوس ہے بچوں کا یہ قتل خاص طور پر کریہہ اور قابل نفرت ہے فاشزم کا گھناونا مظاہرہ بچوں کو جنگ میں جھونکنے کا مطلب ہاری ہوئی جنگ کو ایندھن دینا ہے مجاہدین بیچارے پہلے ہی کون سے طاقتور تھے ادھر ادھر کی امداد پر چل رہے تھے امریکہ سے اسلحہ مل جاتا تھا پاکستان سے غلہ اب اسلحہ ادھر ادھر ہو جاتا ہے اور پاکستان کے عوام کہتے ہیں کہ بچ گیا ہے تو غلہ تمہیں بھی دے دیں گے سعودی عرب سے گوشت آجاتا ہے سو وہ سال میں ایک بار پھر مجاہدین کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے ادھر روسیوں نے اعلان کر دیا ہے کہ چھ ہزار فوج واپس بلا رہے ہیں یعنی وہاں اس فوج کی ضرورت نہیں ہے اور آئندہ مزید فوج کی بھی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ مجاہدین اب کھیتوں میں لگے ہوئے پتلے ہو کر رہ گئے ہیں جو کوے ہنکانے کے لیے لگائے جاتے ہیں لیکن ان پر اکثر کوے آرام کرنے کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں
سو اصل میں یہ ہے ریگن کے تشریف لانے کی وجہ – ریگن صاحب افغان مجاہدین کے درمیان بیٹھ کے نئی سٹریٹجی بنائیں گے زیادہ امداد کا وعدہ کریں گے حکومت پاکستان سے مزید امداد دلوائیں گے کوئی دھمکیاں دیں گے کچھ اکڑیں گے تاکہ مسئلہ کوئی دن اور چل جائے کیونکہ اس کا حل ہو جانا ابھی اعلی حضرت سامراج کے حق میں نہیں ہے انہیں اس سے غرض نہیں کہ اس مسئلے کا مزید کچھ دن بھی چلنا پاکستان کے حق میں نہیں ہے ہمارے ایک دوست نے ایک اور قیاس کا ذکر کیا ہے کہ ریگن صاحب یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ جمہوریت کو کچلنے کے لیے اگر علیحدگی کی تحریکوں کو ہوا دی جائے تو کیسی رہے گی یعنی اگر جمہوریت کا راگ بند ہو تو بانسری ہی کیوں نہ توڑ دی جائے جو قاری اس رائے سے متفق ہو اسے ہم اپنے دوست کے کھاتے میں ڈال دیں گے