برژنیف صاحب کے انتقال پر ابوالاثر جالندھری کے بیان کا انتظار

املا غلط، انشاء غلط، موضوع ندارد، بیان چھپے تو سبکی الگ
تحریر – شاہد رضوی
ہمیں اخبار والوں سے یہ شکایت نہیں کہ وہ ہمارے بیان کیوں شائع نہیں کرتے حالانکہ ہمیں شوق بہت ہے لیکن جب بھی ہم نے کسی بیان کا مسودہ دوستوں کو دکھایا تو ہمیں عجیب جملے اور تبصرے سننے کو ملے ایک صاحب نے پوچھا “یہ بیان تم غیر ملکی دورے کے دوران دو گے یا واپس آکر” دوسرے صاحب نے فرمایا “ضرور تم اکرام اللہ انور صاحب کے شاگرد رہے ہو” ایک اور نے تبصرہ کیا کہ جس مسئلہ پر تم نے بیان لکھا ہے اس مسئلہ کا تو اس میں تذکرہ ہی نہیں ہے ایک دوست نے کہا “میرا خیال ہے شاید تم نے جمہوریت کے بارے میں کچھ لکھا ہے سو اسے تو مدت ہوئی ہے تیزاب میں گلا کر دفن کر دیا گیا ہے اور تمہارا بیان بہت بعد از وقت ہے” اور کچھ خامیاں بھی یاروں نے بتائیں مثلا” یہ کہ ہمارا املا بہت غلط ہے اور خط بہت خراب- یعنی راجہ ظفر اللہ حق کو مارشل لاء حق اور “مجلس شوری کے ارکان” کو “مرغ شوربے کے امکان” پڑھا جائے گا اس صورتحال میں ہمارا بیان کیسے شائع ہو سکتا ہے لیکن ہمیں اس بات پر ہمیں بھی غصہ بھی آتا ہے اور صحافی دوستوں سے لڑائی بھی ہوتی ہے کہ آخر اور لوگ بھی تو ایسے بیان دیتے ہیں وہ کیوں شائع ہوتے ہیں اور جس طرح ہمیں سمجھا رہے ہیں چوہدری رحمت الہی اور پروفیسر غفور احمد کو کیوں نہیں سمجھاتے – آخر ان کے بیان تو ہم سے بھی گۓگزرے ہوتے ہیں
موضوع ندارد، املا غلط کہنا کچھ چاہتے ہیں لکھ کچھ چاہتے ہیں بلکہ بیشتر تو ایسا ہی لکھتے ہیں کہ خود ان کی سبکی ہوتی ہے
صحافی دوستوں نے کہا کہ وہ لوگوں کو بھی سمجھاتے ہیں لیکن نہ تو وہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی مانتے ہیں۔۔۔۔۔ اور شایع اس لیے کرنا پڑتے ہیں کہ ان کے پیچھے ڈالروں کے طاقت ہوتی ہے اور اگر حکومت سے شکایت کر دی تو اخبار بند اور ایڈیٹر جیل میں- عبرت کے لیے کسی کو دیکھنا ہو تو ارشاد راؤ کو دیکھ لو- یہ ان کا کہنا ہے کہ” جماعت اسلامی” “مین” جماعت حکومت ہے اور “اسلامی” پروفیسر غفور اور رحمت الہی ہیں ہمارا خیال ہے کہ ہمارے صحافی دوست ہمارے سلسلۂ میں کچھ مبالغے سے کام لیتے ہیں ورنہ ہم تو یہ کبھی نہیں کہہ سکتے کہ پیپلز پارٹی نے حکومت کا گٹھ جوڑ کر لیا ہے یہ دل گردہ تو صرف چوہدری رحمت الہی ہی کا ہے کا ہے کہ پریس کانفرنس میں ایسی بات کہہ دیں
صحافیوں نے اسے مزاحیہ جملہ سمجھا لیکن چوہدری صاحب پر اس وقت شدید سنجیدگی طاری تھی ایسی سنجیدگی جو اس شخص کے چہرے پر طاری ہوتی ہے جو آپ کو یہ یقین دلا رہا ہو کہ وہ طوطا ہے
چوہدری رحمت الہی شاعر بھی نہیں ہے کہ ایک خیالی رقیب بنا کے محبوب سے التفات کی بھیک مانگ رہے ہوں اگر ایسا ہوتا تب بھی قابل معافی تھا کسی بھی قسم کے دور اندیشی بھی ان کے بیان سے ظاہر نہیں ہوتی ایک صاحب کے بیڈ روم کی چھت شکستہ تھے لہذا ہمیشہ وہ سوتے وقت ٹانگیں چھت کی طرف کر کے سوتے تھے کہ دور اندیشی کا تقاضہ یہی تھا لہذا جب چھت گری تو حالانکہ ان کی ٹانگوں پہ نہ رک سکی ان کی ٹانگیں ملبے سے باہر صاف نظر آرہی تھیں ہمیں یقین ہے کہ چوہدری حمت الہی اتنے دور اندیش نہیں ہیں
ایک بات ہو سکتی ہے کہ چوہدری صاحب پیشہ از مرگ واویلا کر رہے ہوں یعنی انتخابات تو لازمی ہونا ہے خواہ حکومت چاہے یا نہ چاہے اور جماعت کو ایک سیٹ کی بھی امید نہیں- لہذا پہلے ہی الزام لگا دیا جائے کہ حکومت نے پیپلز پارٹی سے ساز باز کر لی چلیے صاحب چوہدری رحمت الہی کو انتخابات کا یقین تو ہے پروفیسر غفور کو تو وہ بھی نہیں ہلکے وہ تو دھمکی دیتے ہیں کہ حکومت سے کہہ دوں گا جب وہ گول میز کانفرنس والوں نے کہا کہ ہم تمہیں حکومت سے کہنے کا موقع ہی نہیں دیں گے اور دعوتی کارڈ کانفرنس میں بلا کر دیں گے تو غفور احمد برا مان گئے کہ ہم کو ایسا ویسا سمجھا ہے جاؤ ہم شریک نہ ہوں گے
عدم شرکت کی ایک وجہ انہوں نے اور بیان کر دی کہ حکومت کو سب کچھ معلوم ہو چکا ہے لہذا ہمارے شریک ہونے کی ضرورت نہیں رہی پروفیسر غفور احمد صاحب یہ بات نہ کہتے تو بھی عوام کے علم میں ہے کہ حکومت سے ان کے تعلقات کانا پھوسی کرنے سے بھی زیادہ ہیں اور وہ اپنے تعلقات کے سلسلے میں کسی احتیاط کی ضرورت بھی نہیں سمجھتے یعنی قطعی جائز سمجھتے ہیں حکومت بھی ان پر مارشل لاء کی کسی دفعہ کا اطلاق نہیں کرتی
ایک زمانے میں پروفیسر غفور احمد چادر، چاردیواری اور امن عامہ وغیرہ پر زوردار بیان دیتے تھے لیکن ان بیانات کا مقصد نہ عوام سے کچھ کہنا ہوتا تھا نہ حکومت کو کچھ سمجھانا- بلکہ کوشیش یہ تھی کہ کہیں پیر پگاڑا صاحب سبقت نہ کر جائیں حالانکہ پیر صاحب بات کرنے میں بہت محتاط رہتے ہیں کہ کہیں کوئی غلط بات نہ کر جائیں اب ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ وہ ہمیشہ انتہائی احتیاط سے غلط بات کرتے ہیں مثلا وکلاء کی تحریک کے بارے میں پیر صاحب نے اپنا ارادہ اس طرح ظاہر کیا کہ وکلاء کی تحریک کی حمایت تو کرتے ہیں لیکن حمایت کرنا کچھ اچھا نہیں لگتا لہذا وہ پہلے پوچھ کر آئیں گے گول میز کانفرنس کے بارے میں بھی پیر صاحب نے یہی کہا کہ ہم تو تیار تھے مولانا نورانی اپنے معاہدے سے پھر گئے ایک دفعہ منور حسن صاحب نے کہا کہ وہ پیر صاحب کے بیانات کو تفریحی کالم سمجھ کے پڑھتے ہیں تب ہمیں پتہ چلا یہ تو پیشہ وارانہ رقابت ہے جو اکثر درباریوں میں پائی جاتی ہے اور جس کی تاریخی مثال اکبر اعظم کے نورتنوں میں ملتی ہے
ہم اپنے بیانات کے قابل اشاعت ہونے کی دلیل میں اور بہت سی اور مثالیں بھی پیش کر سکتے ہیں لیکن وقت کی کمی آڑے آ رہی ہے لیکن آخری مثال کے طور پر جو یقینا ہمارے دعوے میں اتمام حجت ہو گی
ہم برژنیف صاحب کے انتقال پہ ابو الاثر حضرت حفیظ جالندھری کے بیان کے شدت سے منتظر ہیں