جھوٹ کتنا بولا جائے

تحریر – شاہد رضوی

ریسرچ یعنی تحقیق پی ایچ ڈی کے لیے ہو یا محض شوقیہ لیکن اس کا موضوع معقول ہونا چاہیے نامعقول موضوع سے ریسرچ کرنے والے کی شخصیت ہمیشہ کے لیے مشتبہ ہو جاتی ہے ایک صاحب نے موضوع منتخب کیا ہے ہٹلر کی لاش کی شناخت اس ليے نہیں ہو سکی کہ اس کی مونچھیں کسی نے یا خود اس نے صاف کر دی تھیں ہم نے جب ان سے اس موضوع کی وجہ پوچھی تو اس طرح ہنسے کہ جیسے ہم پہلے اور آخری جاہل ہوں ہیں جو انہیں زندگی میں اتفاقا” نظر آیا ہو- کہنے لگے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ہٹلر نے مونچھیں صاف کر دی تھی تو میں ثابت کر دوں گا کہ برلن پہ حملے کے دوران وہ سات مرتبہ جرمنی سے بھاگا تھا

دوسرے صاحب نے موضوع منتخب کیا ہے کہ چنگیز خان نے جو کھوپڑیوں کا مینار بنوایا ہوا تھا اس میں تلے اوپر کتنی کھوپڑیاں تھیں ہم نے عرض کیا کہ تاریخ تو ہزاروں کاسۂ سر کا تذکرہ ہے کہنے لگے غلط اور بالکل غلط یہ صرف پینتالیس کھوپڑیوں سے اتنا بلند مینار تعمیر ہو سکتا ہے کہ دوسرے براعظم سے بھی نظر آجائے چنگیز خان اتنا ظالم ہرگز نہیں تھا کہ مینار کے لیے وافر کھوپڑیاں موجود ہونے کے باوجود 46 ویں آدمی کی کھوپڑی اتار لیتا

تیسرے صاحب ان سے آگے ہیں ان کا موضوع ہے کہ اکبر کے زمانے میں داروغۂ زنداں اور کوتوال شہر کے فرائض کیا تھے اور ان میں انگریزوں کے زمانے میں کیا تبدیلی آئی ہم نے حسب عادت اس موضوع کی بھی وجہ پوچھی کہنے لگے بھائی میری تشویش کی وجہ یہ ہے کہ پیسہ اخبار لاہور کی ایک خبر تھی کہ انگریزوں کے دور میں ایک دن میں 45 آدمی ہلاک اور 370 زخمی، چھ ہزار گرفتار اور نو کروڑ غلام بنا لیے گئے اور پیسہ اخبار نے لکھا تھا کہ اکبر کے پورے دور حکومت میں بھی ہلاک زخمی گرفتار اور غلام بنانے کی تعداد اس کا دسواں حصہ بھی نہیں تھی ہم نے پوچھا پیسہ اخبار بند ہوئے ستر اکھتر برس ہو گئے آپ کو یہ ملا کہاں سے؟ کہنے لگے میرا لڑکا کل جس پڑیا میں سودا لایا تھا وہ اس کی فوٹو کاپی تھی یہ صاحب پی ایچ ڈی ہیں

ملاحظہ کیا آپ نے موضوعات اب اگر ہم ان سے عرض کریں کہ جناب ہٹلر اگر اپنی مونچھ گھر پہ رکھ جاتا تھا یا کسی نائب کو دے جاتا تھا اور ہر دفعہ سفر سے واپسی پر نئ مونچھیں لے آتا تھا تو اپ کو کیا اعتراض ہے اگر وہ اپنی مونچھوں کے بال ایشیا یورپ اور امریکہ میں اڑاتا پھرتا تھا تب بھی آپ کون اور یہ دوسرے صاحب کہ بھائی اگر چنگیز خان نے 45 کھوپڑیوں کا مینار بنایا تو کیا بڑائی ہے زیادہ سے زیادہ وہ جو ایک اور صاحب ہیں تاریخ میں کچھ بھلا سا نام ہے یاد نہیں آرہا ان کے برابر ہو جائے گا اور یہ جو پیسہ اخبار کو لیے پھرتے ہیں اور اکبر کے عہد سے تلاش کر رہے ہیں ان صاحب نے آنکھیں بند کر لیں اور دماغ کی کھڑکیاں اتنی کھول دیں کہ ہوا بھر گئی- سامنے کی بات نظر نہیں آتی پیسہ اخبار کی خبر پر تعجب کر رہے ہیں

صاحب ہم پی ایچ ڈی تو نہیں ہیں لیکن ایسی ریسرچ کرتے ہیں کہ آپ عش عش کر اٹھیں مثلا ہمارے ریسرچ کے متعدد موضوعات میں سے ایک یہ ہے کہ وزیر مستعفی کب ہوتا ہے تاریخ کنگال کر ہم اس نتیجے پہ پہنچے ہیں کہ وزیر اس وقت مستعفی ہوتا ہے جب ننگا ہو جائے پہلے جو وزیر مستعفی ہوتے تھے تو نہ نظر آنے والے لباس کی وجہ سے ننگے ہوتے تھے لیکن زمانہ ترقی کر گیا اور لہذا اب وزير نظر آنے والا لباس بھی اتار پھینکتے ہیں ننگے ہو جاتے ہیں اور گانا گاتے ہوئے استعفی پیش کر دیتے ہیں ممکن ہے ننگ وزارت ہونے سے بچنے کے لیے آئندہ وزرا صرف ننگوں میں سے منتخب ہوں

دوسرا موضوع جس پر ہم نے بڑی عرق ریزی سے ریسرچ کی ہے وہ یہ کہ مسولینی کے بعد جھوٹ بولنے کے فن میں کیا ترقی ہوئی ہے ہماری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ مسولینی کا کہنا یہ تھا کہ جھوٹ کو اتنا دہراؤ کہ وہ سچ معلوم ہونے لگے اب جو اس میں ترقی ہوئی ہے وہ یہ کہ اس کی پرواہ مت کرو کہ کب سچ معلوم ہونے لگتا ہے بلکہ جھوٹ کو دہراتے ہی چلے جاؤ جہاں تک گلا ساتھ دے اور آواز نہ بیٹھ جائے آپ شاید اسے معمولی بات سمجھیں لیکن اس میں ایک نفسیاتی نکتہ پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ جھوٹ کو اتنا دہراؤ کہ وہ تمہاری عادت بن جائے یعنی تم جب بھی بولو ماشاءاللہ جھوٹ ہی بولو مثلا” اگر تمہارے گھر والے بھی کہیں کہ لوڈ شیڈنگ سے بہت تکلیف ہے تو تم واپڈا کے ذمہ دار افسر ہوتے ہوئے فورا کہؤ کہ بجلی کا نظام معمول کے مطابق کام کر رہا ہے بلکہ اب تو وولٹیج بھی زیادہ ہے مثلا” اگر کوئی کہے کہ میرے سامنے ٹنڈو جام سے 25 عورتیں اور بچے پولیس پکڑ کر لے گئی تو اس پہ یقین نہ کرو ظاہر ہے کہ اگر کہنے والی وہاں موجود تھی تو خود کیسے بچ گئی بلکہ اس کی بات پر یقین کرو کہ جس نے دیکھا کچھ نہیں لیکن یقین بالایمان کے درجہ پہ فائز ہے اور کہتا ہے کہ ہرگز نہیں پولیس نے کسی عورت کی طرف دیکھا تک نہیں مثلا” ایک ہے کہ تم خود بھی 10 ہزار کے جلوس میں تھے جس پر گل پاشی بھی ہوئی اور تم نے بھی پولیس فائرنگ سے چار آدمیوں کو مرتے اور سینکڑوں کو زخمی ہوتے ہوئے دیکھا

لیکن جھوٹ بے ایمان کی حد تک یقین اسے کہتے ہیں کہ ایک شخص اعلان کر رہا ہے کہ پنجاب کے عوام نے جلوس میں شرکت نہ کر کے میرا دل جیت لیا اور عوام نے ایجیٹیشن کو مسترد کر دیا آہ بےچارا مسولینی کتنا شرمندہ ہوگا کہ اس درجۂ کمال پر فائز نہ ہو سکا

 

Scroll to Top