یہ ہلال عید تھا کہ ماہ نخشب

آخر یہ چاند نکلا کہاں سے؟

تحریر – شاہد رضوی

لیجیے صاحب وہ عید بھی ہمارے سر سے گزر گئی جس کا چاند رات 11 بجے دکھائی دیا تھا

 بظاہر چاند کی ناراضگی کی کوئی وجہ ہماری سمجھ میں نہیں آئی لیکن یہ بات سب تسلیم کر رہے ہیں کہ چاند ناراض بہت تھا ورنہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رات گیارہ بجے نظر آئے اور پھر کراچی کے بجائے اکوڑا خٹک جا کے نکلے بھئی کراچی میں نہ نکلے لاہور میں نہ نکلے آخر اکوڑا خٹک ہی کیوں—؟ ہمیں اکوڑا خٹک سے الرجی نہیں ہے مگر اس پر حیرت ہے کہ آج سے پہلے تو کبھی اکوڑا خٹک میں چاند نہیں نکلا تھا آج کیوں وہاں جا پہنچا اس سے زیادہ پریشانی یہ ہے کہ رات کو 11 بجے کیوں نکلا- اس سے پہلے والے تمام چاند شام کو نظر آجاتے تھے

ہمارا خیال ہے کہ شاید پرانا چاند ریٹائرڈ ہو گیا اور اس کی جگہ کوئی نیا چاند بھرتی کر لیا گیا ہے جسے نہ تو یہ علم ہے کہ نظام شمسی کوئی چیز ہے نہ اوقات کار کا پتہ ہے اور نہ یہ کہ ہمارے ملک کے جغرافیہ میں ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں آئی نہ جانے کیوں ہمیں یقین نہیں آتا کہ کوئی چاند ایسی بے پرواہی کا مرتکب ہو سکتا ہے لے دے کے یہی بات ہو سکتی ہے کہ پرانا چاند کسی پولیس والے کے ہتھے چڑھ گیا ہوگا اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو ماہ نخشب کے لیے آرڈر دینا پڑا ہوگا ماہ نخشب کنویں سے نکلتا ہے اور کنویں صرف اکوڑا خٹک میں نہیں پھر ماہ نخشب کی سینکڑوں سال پرانی مشین کو صاف کرنے میں بھی وقت صرف ہوا ہوگا اگر چاند دو تین گھنٹے دیر سے نکلا تو ان حالات میں یہ ایسی قابل اعتراض بات نہیں ہے قابل اعتراض بات تو اس وقت بھی نہ ہوتی اگر سحری ختم ہونے کے سائرن کے پانچ منٹ کے بعد دوسرا سائرن بجا کے چاند کا اعلان کرتے یا صبح کی خبروں میں بتا دیتے

لیکن یہ اچھا ہوا کہ لوگوں کو اعتراض کرنے کا موقع نہیں رہا ممکن ہے کہ یہ معمولی سی دیر اس وجہ سے ہوئی کہ ہمارے بیشتر علماء کو غور و فکر اور سوچنے سمجھنے کی عادت بہت زیادہ ہے وجہ یہ ہے کہ انہیں ترازو کے دونوں پلڑوں میں دین و دنیا کو بیلنس کرتے رہنا پڑتا ہے مثلا” یہ کہ اگر مسجد کے نام کا پلاٹ چھ لاکھ میں بیچا تو 600 روپیہ دین کے پلڑے میں اس یتیم خانے کے نام لکھ دیۓ جس کے لیے وہ خود سرپرست اعلی ہیں یہ حساب کتاب آپ جانتے ہیں بہت باریک کام کا ہوتا ہے ذرا سی بھول چوک عاقبت کا ستیاناس کر دیتی ہے اس لیے ایسے موقع پہ خود فراموشی کی سی کیفیت پائی جاتی ہے اور یہ ہو سکتا ہے کہ خود فراموشی کی اسی کیفیت سے نکلنے کے بعد مرکزی کمیٹی نے چونک کر چاند کا اعلان کر دیا ہو

 کوئی بھی سائنس کا طالب علم آپ کو بتا سکتا ہے کہ آواز کی رفتار 1100 فٹ فی سیکنڈ ہوتی ہے اس نے اکوڑا خٹک کو اسلام اباد کے درمیان فاصلے کو جب اس رفتار سے تقسیم کیا تو جواب آیا کہ تین گھنٹے اور کچھ منٹ بالکل وہی وقت تھا جب سائرن بجا تھا ہمارے ملک میں ابھی تک آواز کی لہروں کو بجلی کی لہروں سے نتھی کر کے بھیجنے کا رواج نہیں ہے جس سے آواز ایک ثانیہ میں دنیا کا چکر لگا لیتی ہے اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کیا اکوڑا خٹک کی رویت ہلال کمیٹی نے چاند دیکھ کر اسلام آباد کی طرف منہ کر کے زور سے آواز لگائ ہوگی کہ چاند ہو گیا یہ آواز تین گھنٹے کا سفر طے کر کے کر کے 11 بجے اسلام آباد پہنچی تب کہیں اعلان ہو سکا- ہم ففٹی  ففٹی  والوں کی اس بات سے متفق نہیں ہے کہ اناؤنسر کے کپڑے درزی کے پاس سے آ جانے کے بعد چاند کا اعلان ہوا ہے

بعض لوگ ہماری اس رائے سے متفق نہیں ہیں کہ چاند دیر سے نکلا ان کا کہنا ہے کہ چاند پورے بیس گھنٹے قبل نکل آیا اور چونکہ راستے میں پکڑا گیا تھا اس لیے کراچی یا لاہور  سے پہلے ہی اکوڑا خٹک میں دھر لیا گیا ان کی دلیل یہ ہے کہ جمعہ کی عید حکومت پر سخت ہوتی ہے ہم اس دلیل کو رد کرتے ہیں کیونکہ ہماری حکومت اتنی سخت ہوتی ہے کہ جمعہ کی تو الگ ہی رہی اس پر جنگ عظیم سوئم کا بھی اثر نہ ہوگا ان کی دوسری دلیل یہ تھی کہ ایم آر ڈی والوں نے جمعہ کو مظاہروں کا اعلان کیا تھا لہذا عید کو ڈنڈا ڈولی کر کے ایک دن پہلے لانا پڑا ایم آر ڈی والوں سے ہم نے بھی کہا تھا لیکن وہ نہ مانے اور رات 11 بجے اعلان کر دیا تاکہ اس کے بعد ایم آر ڈی والوں کو بھی جمعہ کے بارے میں غلط فہمی نہ رہے یہ دلیل بھی کچھ جچی نہیں کیونکہ ایم آر ڈی والوں کو جمعہ اور جمعرات کی خبر یقینا” ہوگی

ان دوستوں کی تیسری دلیل یہ ہے کہ سعودی عرب میں چاند نکلنے کے دو روز بعد پاکستان میں عید ہوتی ہے یہ دلیل بھی بہت بوگس ہے کیونکہ زکواۃ اور امداد کے لیے تو ہم سعودی عرب کے دست نگر ہیں لیکن چاند کا نکالنا ہمارا داخلی معاملہ ہے چاند ہم سعودی عرب سے نہیں منگواتے ہمارا اپنا چاند ہے جی چاہے گا نکالیں گے نہ جی چاہے گا نہ نکالیں گے

ان دوستوں کی چوتھی دلیل یہ تھی کہ ہندوستان میں چاند نہیں ہوا یہاں کیسے ہو گیا اس دلیل کو ہم نے دوستوں کے سامنے احمقانہ قرار دیا سب کو معلوم ہے کہ دنیا بھر میں چاند آسمان پر دیکھا جاتا ہے اس میں چونکہ بڑی غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی تھیں مثلا” آسمان کو دیکھتے ہوئے چوتھی منزل کے کسی فلیٹ پر نظر پڑ گئی تو ایکا ایکی لوگوں نے چاند ہو گیا کا اعلان کر کے ایک دوسرے کو مبارک باد دینا شروع کر دی  ہم بیوی بچوں کی فرمائش پہ تیسویں روزے سے بچنے کے لیے بھی اس طرح کے چاند برآمد کر دیتے ہیں ان غلط فہمیوں سے بچنے کے لیے ہم چاند کو رویت ہلال کمیٹی کی میز کی دراز سے نکالتے ہیں

ان دوستوں کی پانچویں دلیل البتہ بہت ٹھوس اور وزنی ہے ان کا کہنا ہے کہ چونکہ چاند اکوڑا خٹک میں دیکھا گیا ہے جو افغانستان کی سرحد کے قریب ہے لہذا سیاسی طور پہ بھی ہمیں اس چاند کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس میں ببرک کارمل حکومت اور روسیوں کی کوئی چال ہو- ہمیں یقین تو نہیں آتا کہ افغانستان والے اپنا چاند ہمارے ہاں طلوع کر دیں لیکن کیا پتہ- ایسي شرارت- ببرک کارمل حکومت سے کچھ بعید بھی نہیں-

بہرحال عید تو ہم مناہی چکے اب آئندہ سال دیکھیں گے

 

Scroll to Top