ہر بااثر شخص کسی نہ کسی شکل میں ٹھیکیدار واقع ہوا ہے

ہندو اگر اپنے بنیا پن پر ناز کر سکتا ہے تو "ٹھیکے داری" کے سمندر کی شناوری پر ہمیں بھی فخر کرنا چاہیے
تحریر – شاہد رضوی
اگر ہندو خود کو فخریہ بنیوں کی قوم کہہ سکتے ہیں تو ہم پاکستانی مسلمان بھی فخریہ اعلان کر سکتے ہیں کہ ہم ٹھیکہ داروں کی قوم ہیں زیادہ عرصہ سے نہیں ہیں لیکن فن ٹھیکہ داری کے امور اور نکات پر ہمارا تجربہ اتنا ہے کہ ہم دنیا بھر میں اس فن کے امام ہیں ہمارے ایک دوست کے دماغ میں جانے کیا سمایا کہ اچھی بھلی کلرکی کو چھوڑ کے چار گدھے کرائے پر لے ليۓ اور ایک ادارے میں کھودی ہوئی مٹی ٹھکانے لگانے کا ٹھیکہ لے لیا سال بھر تو ہم انہیں گدھے ہنکاتے دیکھتے رہے لیکن اس کے بعد یہ معجزہ دیکھا کہ چار گدھے تبدیلی ماہیت کرکے چار کاروں کی شکل اختیار کر گئے ہم ٹھیکے داری پر فورا” ایمان لے آئے اور تب ہماری حیرت زدہ عقل پر اس فن کے اسرار و رموز منکشف ہونا شروع ہوئے
پہلی بات تو یہ معلوم ہوئی کہ تمام بااثر ومعزز یعنی دولتمند حضرات کسی نہ کسی شکل میں ٹھیکہ دار ہی ہیں زندگی کے ہر شعبے میں ٹھیکہ داروں کی ایک بہت فوج ظفر موج ہے جو دندنا رہی ہے بلڈنگیں ،سڑکیں، پل وغیرہ تو آتے ہی ٹھیکے داروں کی وراثت میں ہیں لیکن ان کے پہنچ تو ہمارے تصور سے بھی بہت آگے تک ہے زراعت ہو یا صنعت، صحت ہو یا تعلیم روزگار ہو یا بیروزگاری ٹھیکہ داری کا جلوہ موجود ہے مواصلات ہو یا ابلاغ عامہ کے ذرائع صحافت ہو یا ادب یا فنون لطیفہ- سیاست ہو یا حکومت اسلام ہو یا نظریۂ پاکستان سب میں کسی اور کا جلوہ فرما نہ دیکھا
دوسری اہم بات یہ سمجھ میں آئی کہ ہر میدان میں ٹھیکے داری کی قسم شکل و صورت اور طور طریقے مختلف ہیں گویا یہ فرق بھی اہم ہے کہ مثلا” تعمیرات کا ٹھیکہ دارچڑھی ہوئی مونچھیں رکھتا ہے جبکہ صحت تعلیم کے ٹھیکہ دار یا تو مونچھیں رکھتے ہی نہیں ہیں بہت مہذبانہ مونچھیں رکھتے ہیں لیکن ہماری مراد اس فرق سے نہیں ہیں بلکہ اس وقت سے ہے جو کام کی نوعیت کے مختلف ہونے کے بعد بنا پر پیدا ہوا ہے مثلا” تعلیم کے ٹھیکے دار کو کسی ٹینڈر یا شیڈومنٹ بک کی قطعی احتیاج نہیں ہوتے ٹھیکے کی رقم وصول کرنے میں بھی فرق ہوتا ہے جیسے روزگار دلانے والے ٹھیکے دار جو ہمیشہ اپنے رقم کام شروع ہونے سے اور پہلے پوری پوری وصول کر لیتے ہیں جیسے ہمارے اسپیشلسٹ ڈاکٹر جو سال بھر کے ٹھیکے کا تخمینہ لگا کے اپنے مریضوں پر تقسیم کر دیتے ہیں اور ہر مریض سے اس کا تخمینہ کا زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کر لیتے ہیں
تیسرا دقیق نکتہ جو ہم سمجھ پائے ہیں وہ یہ کہ اتنی رنگارنگ ہونے کے باوجود ٹھیکہ داروں کی بنیادی دو قسمیں دو ہی ہوتی ہیں قسم اول ساختہ غیر کہلاتی اور دوسری قسم ساختہ غیر کہلاتی ہے ان دونوں قسموں میں کام کے نتائج کے اعتبار سے دوم تو زیادہ خطرناک شمار ہوتی ہے کیونکہ ذہنوں کو مسمار کرتی ہے جبکہ قسم اول جسموں کے قید سے روح کی نجات کا باعث بنتی ہے
چوتھی اہم بات یہ کہ ٹھیکے دار خواہ کسی قسم کا ہؤ اس کا بنیادی نظریہ ہمیشہ ایک ہوتا ہے یعنی اپنی تعمیر کا راستہ دوسروں کے کھنڈر میں سے ہو کے گزرتا ہے دوسروں میں ہم آپ بھی آتے ہیں اور ملک و قوم بھی عمل کو قوم بھی- عمارتیں ہوں یا پل، اسلام ہو یا نظریہ پاکستان سب کے ٹھیکہ داروں کو آپ اسی مقولے پہ عمل پیرا پائیں گے ثابت یہ ہوا کہ ٹھیکے داری کے فن تعمیر کا لازمی جز تخریب ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو یقینا” ٹھیکے داری کا فن تباہ ہو چکا ہوتا-
پانچویں بات یہ ہے کہ ٹھیکے داری کی تیکنیک میں ایک دمڑی سے سو سو کے نوٹ نکالنے کا فن بنیادی نکتہ ہے ہر ٹھیکے دار یہ بات جانتا ہے کہ کہاں 50 روپے دے کر 50 ہزار پیدا کریں اور کہاں ہزار خرچ کر کے کم سے کم منافع یعنی دو ہزار پیدا کرے
چھٹی بات یہ معلوم ہوئی کہ لازمی نہیں کہ ہر ٹھیکے دار ہر ٹھیکہ خود مکمل کرے بلکہ وہ اپنے کام کو بے شمار چھوٹے ٹھیکے داروں میں تقسیم کر سکتا ہے اس کے نتیجے میں ہر ٹھیکے دار کے ضمنی ٹھیکے دار اور ان کے ذیلی ٹھیکے داراور ذیلی ٹھیکے دار کے ضمنی ٹھیکے دار اور پھر ذیلی ٹھیکے دار- کرداروں کی اتنی بڑی تعداد ہوتی ہے کہ اصل کام کا کوئی پتہ نہیں چلتا کہ کس کے پاس ہے
ساتویں بات یہ معلوم ہوئی کہ ٹھیکے داری کی ایک مخصوص بو ہوتی ہے جو موافق اور مخالف ہر ہوا کے ساتھ پھیلتی ہے اس بو کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کی زد میں آنے والا اپنے تمام حس کھو دیتا ہے اس بو کے اجزائے ترکیبی کہیں رشوت، سفارش اور قرابتداری وغیرہ ہوتے ہیں اس بو کے پھیلائے ہوئے امراض متعدی ہوتے ہیں اور ہر مریض میں ٹھیکے دارانہ عادتیں پیدا کر دیتے ہیں
آٹھویں بات یہ کہ ہر ٹھیکے دار کو جاننا چاہیے کہ کب کس کو کیسے دیا جائے اور معاوضہ بعوض ٹھیکہ کیسے اور کس شکل میں وصول کیا جائے اس میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے مثلا” کہیں نقد دیا جا سکتا ہے کہیں 40 ہزار میں مکان بیچ کے چار لاکھ میں خریدا جا سکتا ہے اور کہیں کسی کی بیٹی شاہ کی شادی پر پورا جہیزپیش کیا جا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ میرے خیال میں اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ جو ٹھیکہ دارانہ عادتیں پیدا ہو گئی ہیں ان کے اصل وجہ بڑے ٹھیکے دار ہیں جن سے یہ موذی مرض ہمیں لگ گیا ہے مثلا سوتے میں جو ہم کبھی کبھی اسلام اسلام چیخنے لگتے ہیں تو اس کی وجہ اسلام سے محبت نہیں بلکہ خواب میں ہمیں ڈالروں کے ڈھیر نظر آجاتے ہیں یا کل جو ایک صاحب ہم سے کہہ رہے تھے کہ تمہارا چار میل لمبا جلوس نکلوا دیں تو انہیں یہ توقع تھی کہ ہم کے ڈی اے میں اپنے ایک دوست سے کہہ کے انہیں پیٹرول پمپ کا پلاٹ دلوا دیں گے سنا ہے کہ بعض لوگ کسٹم کلیکٹر کے زیر صدارت مشاعروں میں شعر اسی لۓ پڑھتے ہیں کہ بعد میں اپنا مال کسٹم سے چھڑوا سکیں ہر سودے میں ایک لینے والا ہوتا ہے ایک دینے والا لیکن ٹھیکے داری کا سودا ایسا ہے کہ جس نے ٹھیکہ دیا اس سے بھی لیا اور جس نے ٹھیکہ لیا اس نے بھی لیا غالبا یہ دنیا کا واحد سودا ہے جس میں دینے والے کا نام ہی نہیں آتا یعنی دونوں آدمی نہایت خاموشی سے عوام کے جیب سے نکال لیتے ہیں
ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ ٹھیکے داری کو تقسیم کارنے جنم دیا ہم نے اس جملے کی تصیح کی کہ ٹھیکے داری کو تخریب کار نے جنم دیا ہے تجربہ شرط ہے ٹھیکیدار کی بنائی ہوئی مضبوط ترین عمارت بھی دو ایک بارشوں کے بعد ملبہ بن جاتی ہے اتفاق سے پاکستان بنانے والے ٹھیکے دار نہ تھے لہذا پاکستان بن گیا بنیادیں بھر گئے تھے عمارتیں بنانے کا کام ہم نے ٹھیکے داروں کے حوالے کر دیا ہم نے تو نہیں کیا ٹھیکے داروں نے خود ہی ہم سے چھین لیا نتیجہ یہ ہے کہ ہم بنیاد سے جگہ جگہ نکلی اینٹیں تلاش کر رہے ہیں اور ٹھیکے داروں کے آدمی ہمیں بہلانے کے لیے نظریہ پاکستان کا غل مچا رہے ہیں
ٹھیکے دار کی قسم دوم یعنی ساختہ غیر کے گوناگوں کو فوائد میں لوگوں کو وقفے وقفے سے روزگاری اور بے روزگاری کے تجربے سے گزارنا- سولہ سولہ گھنٹے مشقت لے کے لوگوں میں محنت کی عادت پیدا کرنا- کم سے کم پیسے دے کر قناعت و توکل کی خصوصیات اجاگر کرنا وغیرہ شامل ہیں- ان فوائد کی وجہ سے ٹھیکے داری اب قومی اداروں کا مقبول ترین شعبہ ہے اکثر اداروں میں پالیسی چلانے والے لوگ بھی ٹھیکے پر آتے ہیں ظاہر ہے کہ ٹھیکے کے کام میں شکایت کی کیا گنجائش؟ لوگوں کو ملازمت سے نکالنا پھر ان کی جگہ نئے لوگ بھرتی کرنا، پہلے کالونی میں آباد کرنے کے لیے مراعات دینا- پھر مکانوں سے دھکے دے کے نکالنا وغیرہ ایسے کام ہے جو ٹھیکہ دار ہی کر سکتا ہے اس کا راز تو آیدو مرداں چنیس کنند اور یہ کہ کودا کوئی گھر یوں گھر میں تیرے دھم سے نہ ہوگا جو کام کیا ہم نے وہ تم سے نہ ہوگا وغیرہ وغیرہ
اب سنا ہے کہ بہت سے قومی ادارے ملازمین کے علاج معالجے کو بھی ٹھیکے پہ دینے والے ہیں ٹھیکے داری کی جو قسم نہایت فراوانی سے دستیاب ہے وہ خود ساختہ کہلاتی ہے خود ساختہ ٹھیکے دار دراصل بے ساختہ ٹھیکے دار ہے چونکہ کسی طرح بھی قابل دست اندازی پولیس نہیں بنتا اس لیے نہایت عام ہے ریتی بجری کے علاوہ ہر جگہ پایا جاتا ہے کام بھی ایسا کہ ہلدی لگے نہ پھٹ کرے رنگ بھی چوکھا آئے محض بیانات کے ذریعے مسلم لیگ کے لیڈر نظریہ پاکستان کے ٹھیکے دار بنے بیٹھے ہیں
اسلام کی ٹھیکے داری کے لیے اپنے ڈاکٹر اسرار احمد کی مثال کافی ہے ورنہ ہر فرقہ اپنے چھوٹے بڑے ضمنی ذیلی ٹھیکے دار الگ رکھتا ہے سوشلزم کے ٹھیکے دار تو اتنے زیادہ ہیں کہ خود سوشلزم چھپا پھرتا ہے دوسرے شعبوں میں ٹھیکے دار آپ خود ڈھونڈ لیں کام سب کا ایک ہی ہے اپنی تعمیر کے لیے عوام کے ذہنوں کی تخریب ضروری ہے
اب ہم بھی سوچ رہے ہیں کہ ٹھیکے داری شروع کریں اور اپنے دفتر پہ ایک بورڈ لگائیں جس پہ لکھا ہوا “ٹھیکے دار برائے تخریب کاری ٹھیکے داران خود ساختہ اور ساختہ غیر” اور بورڈ کے نیچے ایک کونے میں مالک فرم کا نام جلی حروف میں عوام لکھ کر بیٹھ جائیں