کمیونسٹ پارٹی کیوں؟

تحریر – شاہد رضوی
سوویت یونین میں پریسترائیکا اور گلاسنوسٹ اور اس پورے خطے میں گہری سماجی تبدیلیوں کے نتیجے میں مارکسزم لیننزم کے نظریات اور حکمت عملی کے بارے میں متعدد سوالات منظر عام پر آئے ہیں اس میں یہ سوال بھی شامل ہے کہ آج کے دور میں کمیونسٹ کی کیا ضرورت ہے؟
اس میں کچھ اور سوال بھی مضمر ہیں جن کا رخ یہ ہے کہ مزدور طبقہ کی اگر طبقاتی حیثیت نہیں ہوتی تو بھی، کسی پارٹی کی ضرورت نہیں ہے یا یہ کہ کوئی بورژوا ڈیموکریٹک پارٹی سارے سماج کے مفادات کی نگرانی کے لیے کافی ہے
کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان نے اپنی چوتھی کانگریس کے لیے جو ڈرافٹ تھیسس تیار کیا ہے اس میں پیراگراف دو سے سات میں یہ کہنا کافی سمجھا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی مزدور طبقے کی پارٹی ہے اور ساتھ ہی پیراگراف تین سے سات میں یہ کہا گیا ہے کہ پارٹی کی رائے میں اس کے مقاصد پرامن جمہوری جدوجہد سے حاصل ہو سکتے ہیں
“کمیونسٹ پارٹی کی موجودگی مزدور طبقے کی سیاسی پارٹی کی حیثیت سے لازم ہے“
ایک جملہ پارٹی کے مافیہ پر اور ایک جملہ حکمت عملی پر – یہ ہے کل سرمایہ جو ڈرافٹ تھیسس اس سوال پر ہمیں دیتا ہے کہ ڈرافٹ نے اس بات کو قطعی نظر انداز کر دیا ہے کہ پارٹی کے وجود، اشکال اور افادیت کا مسئلہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور اس پر صاف ہوۓ بغیر حکمت عملی وضح نہیں کی جا سکتی جس کے لیے کانگریس بلائی جا رہی ہے
یہ سوال خاص طور پر ہمارے ملک میں زیادہ اہمیت رکھتا ہے
آج کی عالمی صورتحال امن، مفاہمت اور تعاون سے عبارت ہے سوویت روس نے عظیم انقلابی اقدامات کیۓ ہیں جس میں اسٹالن کے دور کی انتہا پسندی کا خاتمہ- امن عالم کے لیے آئ این ایف معاہدہ- علاقائی تنازعات مثلا” افغانستان میں، ختم کرنے میں پیشرفت- اپنی عالمی پالیسیوں میں سے مخاصمت کا عنصر خارج کر دینا- سرد جنگ کا خاتمہ- معاہدہ وارسا نیٹو کا فوجی کردار ختم کرنا- جرمنی کا اتحاد- سوشلسٹ بلاک کے ملکوں میں نوکرٹ میں سے آزادی- سویت ریاستوں کی نئی اور آزادانہ تنظیم روس میں انسانی حقوق اور آزادیوں کا نیا تصور اور عالمی انسانی حقوق سے ہم آہنگی پیدا کرنا- روس کا اقتصادی ڈیڈ لاک ختم کرنا اور تنظیم نو کے ذریعے سامراجی معیشت کی کمزوری سے فائدہ اٹھانا اور عالمی معیشت کی سطح مضبوط کرنا- سامراجی استحصالی طاقت کم کرنے کے لیے عالمی سرماۓ کے ادارے مثلا آئی ایم ایف- ورلڈ بینک- ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ میں شمولیت پر اصرار- حال میں عراق کے مسئلہ پر امریکہ مہم جوئی کو روکنا اور یورپین سلامتی کے منصوبے کی سرگرم حمایت – یہ اور ایسے متعدد اقدامات روسی ڈپلومیسی کے رخ کو ہی ظاہر نہیں کرتے بلکہ ایک بدلتے ہوئے عہد کی طرف بھی اشارہ کر رہے ہیں
یہ بات درست ہے کہ سوویت روس کی بدلتی ہوئی پالیسیوں کے نتیجے میں سوشلسٹ ممالک کو ترقی پذیر ممالک کو کچھ نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے کیونکہ نئی اقتصادی پالیسیوں کی بنا پر سوویت روس اور مراعات نہیں دے سکتا جو پہلے دے رہا تھا مثلا کیوبا جو اپنی شکر ہر قیمت پر روس کے ہاتھ فروخت کرتا تھا اور روس سے رعایتی قیمت پر تیل حاصل کرتا تھا یہ رعایت غالبا” ایک سال کے بعد ختم ہو جائے گی
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان رعایتوں اور امداد سے جو سوشلسٹ اور ترقی پذیر ممالک اب محروم ہوں گے ان میں سے ایک بھی کمزور پوزیشن میں نہیں ہے اور کسی کو بھی سامراج باسانی اپنا شکار نہیں بنا سکتا مثلا” افغانستان میں جس پر آج بھی بنیاد پرستی اور رجعت پسندی دانت لگائے بیٹھی ہے لیکن ناکام ہے یہ روسی حکمت عملی کی طاقت اور سامراجی جارحیت میں کمزوری کا نتیجہ ہے
سامراجی ریاستوں کا نظام ایک ایسے زوال سے دوچار نہیں جو مختلف رجحانات کا اظہار کر رہا ہے سماجی اور سیاسی طاقت کی حیثیت سے سامراجیت زوال پذیر ہے، جبکہ سائنسی و تکنیکی ترقی اور پیداواری صلاحیت میں طاقتور اور ترقی پذیر ہے
امریکی بجٹ میں بڑھتا ہوا خسارہ سوشل سیکیورٹی میں کمی- ٹیکسوں میں اضافہ،- بےروزگاری اور بےگھری- بڑھتے ہوئے جرائم، اور منشیات اور مصنوعی سماجی سہارے (مثلا” ڈاکٹروں کی انشورنس وغیرہ) اس سماجی نظام کے عکاس ہیں
سیاسی طاقت کی حیثیت سے امریکی سامراج جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ طاقتور ملک بن کے ابھرا تھا جن کا نو آبادیاتی نظام عالمگیر ہو رہا تھا آج اپنے خول میں واپس جا رہا ہے نو آبادیات ختم ہو چکے ہیں سیٹو- سینٹو- نیسٹو- دفاعی معاہدے- بیرونی اڈوں کا جال اپنی افادیت کھو چکے ہیں مارشل پلان والا رعب داب یورپین ممالک بھی اب نہیں مانتے-
نوآزاد ممالک عام طور پر اپنی مرضی چلاتے ہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے ممالک بھی امریکہ کو آنکھیں دکھاتے ہیں امریکہ کی جارحانہ صلاحیت ویتنام کے بعد گھٹتے گھٹتے صفر پر آرہی ہے روس اقوام متحدہ اور ترقی پذیر ممالک کی ایک بڑی تعداد امریکی جارحیت کے آگے سب سے بڑی روک ہے
اقتصادی نظام میں مشین واری اور پیداواری صلاحیت میں مسلسل اضافہ اس کا طاقتور پہلو ہے مشینی آلات کی مسلسل ترقی سرمایہ داری کی فطرت ہے سائنسی اور تکنیکی انقلاب آج اس کا مظہر ہے اس پہلو کی اہمیت یہ ہے کہ اگر آج سائنسی آلات کی ترقی رک جائے یا انہیں کام نہ کرنے دیا جائے تو پورا نظام بدترین بحران کا شکار ہو جائے گا کیونکہ نئ مشین منڈی میں پرانی مشینوں کی جگہ لے کر منڈی کو ترقی پذیر رکھتی ہے اور مسلسل پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے
اقتصادی نظام میں کمزوری یہ ہے کہ سرمایہ داری کی بنیاد ذرائع پیداوار کی ذاتی ملکیت ختم ہو رہی ہے اور اس کی جگہ سرمایہ داروں کے گروپ اور شیئر ہولڈر لے رہے ہیں ادارے تنہا ملکیتی نہیں ہیں گو اب بھی صورتحال یہ ہے کہ پالیسی سازی اور منافع کا بڑا حصہ مختلف شکلوں میں سرمایہ دار طبقہ کے پاس ہی رہتا ہے اور وسيع شیئر ہولڈرز کو بہت کم ملتا ہے لیکن کسی کاروبار کی وسعت بڑھنے کے ساتھ سرمایہ داروں کی تعداد بھی بڑھتی ہے اور شیئر ہولڈرز کی بھی – ٹی این سی (1) کے عمل کا تقاضہ یہ ہے کہ مینیجر – اعلی تیکنیکی اسٹاف حتئ کہ عام مزدوروں کو بھی ملکیتی عمل میں شامل کیا جائے منافع کا جو حصہ انہیں ملتا ہے بہت کم ہوتا ہے لیکن سرمایہ داروں میں جو حصہ تقسیم ہوتا ہے وہ بھی پہلے سے بہت کم ہوتا ہے
اس نے سرمایہ کاری اور تقسیم کا ایک انتہائی پیچیدہ نظام پیدا کیا ہے چند سال پہلے پوری دنیا میں شیر مارکیٹ کریش ہو گئی تھی سرمایہ لاتعداد نامعلوم لوگوں سے آتا ہے اور جب بحران اتا ہے تو سرمایہ دار طبقہ کم اور یہ لا تعداد نامعلوم لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں سرمایہ داری نے شیئر – کرنسی – بینک – توانائی وغیرہ کے لیے نظام پیدا کیے ہیں جن سے کسی بحران کو کسی دوسرے شعبے میں طرف منتقل کیا جا سکے- لیکن ان شعبوں کے اپنے تضادات ایسے ابھر رہے ہیں جو بحرانوں کو کم کرنے کے بجائے ابھار رہے ہیں
سامراج کی ایک اور کمزوری یہ ہے کہ یہ تقسیم ہو گیا ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد صرف امریکی سامراج موجود تھا آج جاپان- جرمنی اور کینیڈا بھی سامراجی ممالک میں شامل ہو گئے ہیں اور اس فرق کے ساتھ کہ ان کا انحصار امریکہ کی طرح اسلحہ سازی پر نہیں ہے
مختصرا” یہ کہا جائے گا کہ ایک طرف سوشلسٹ ممالک میں جہاں عوام حکومت کی نئی شکلیں ڈھال رہے ہیں روس ہی نہیں بلکہ مشرقی یورپ کے بیشتر ممالک میں کمیونسٹ پارٹیاں ہی حکمران ہیں البتہ کہیں کہیں نئے نام سے کمیونسٹ بلاک کی جگہ ایک نیا وسیع بلاک تشکیل پذیر ہے کمیونسٹ پارٹیوں کی رہنمائی اب بھی وہاں کا معروضی تقاضہ ہے لہذا یہ پارٹیاں وہاں موجود ہیں
دوسری طرف سائنسی اور تکنیکی انقلاب اور ٹی این سی(ز) نے سامراجی استحصالی نظام کا ایک نیا ڈھانچہ کھڑا کر دیا ہے جو حقیقت میں سامراج کا ایک نیا مظہر ہے یہ نظام عالمی تقسیم محنت – پیداواری صلاحیت – خام مال – تقسیم پیداوار سرمایہ کاری وغیرہ میں ایک پیچیدہ نظام ہے لیکن ماہیت اور تضاد میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر کھڑا ہے ذرائع پیداوار پر سرمایہ دار طبقے کی ملکیت – استحصال اور طبقاتی تضاد سماج میں موجود نہیں گو کہ تفصیلات میں فرق آ گیا ہے
آج کے عالمی منظر نامے میں بڑی تبدیلیاں آچکی ہیں امن مفاہمت و تعاون کا نعرہ، سیاست، اقتصادیات ٹیکنالوجی وغیرہ آج بنیادی نعرہ ہے سوشلسٹ کیمپ پنجہ آزمائ کے بجائے ہاتھ ملا رہا ہے اور دنیا کی ترقی کے لیے مقابلے کی صحت مند فضا بن رہی ہے گو عالمی ہم آہنگی کی منزل اب بھی دور ہے
عالمی سطح پر مزدور طبقہ کا کردار گھٹا نہیں ہے بلکہ زیادہ بڑھا ہے لیکن تبدیلیوں کے ساتھ- آج کا دور چونکہ طبقاتی پرتوں کے مکس اپ ہونے کا دور ہے اس لیۓ مزدور طبقے کا کردار واضح نظر نہیں آرہا ہے خاص طور پر سماجی تبدیلیوں کے محرک کے طور پر – ٹیکنالوجی کی اوپر اٹھتی ہوئی سطح کی بنا پر جہاں غیر ہنر مند مزدور، ہنرمند مزدور میں تبدیل ہو رہا ہے وہاں اعلی تیکنیکی اور سائنسی صلاحیت رکھنے والے مزدور کے ساتھ صفیں بنانے پر مجبور ہیں – ان کی پیشہ وارانہ تنظیمیں اس کی گواہ ہیں
اگر ہم یہ فرض بھی کر لیں کہ سرمایہ دار طبقہ ختم ہو رہا ہے تب بھی سماجی تبدیلیوں (ایسی سماجی تبدیلیاں جن میں استحصال کا مکمل خاتمہ ہو سکے) کا محرک صنعتی مزدور طبقہ ہی رہتا ہے جو اس وقت بھی سماج کی سب سے نچلی سطح پر ہوگا جس کے لیے استحصال سے نجات حاصل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اسے پورے سماج کو استحصال سے آزاد کرانا ہوگا کل تک یہ تبدیلی پرتشدد تھی آج یہ پرامن ہوگی
صورتحال کا یہ تذکرہ ترقی یافتہ ممالک کو ذہن میں رکھ کر کیا گیا ہے – ظاہر ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں عالمی اثرات کے باوجود، حالات بہت مختلف ہیں بیشتر ترقی پزیر ممالک میں، سماجی ڈھانچے روایتی ہیں پاکستان میں ابھی تک سماجی طور پر موثر طبقے زراعت سے متعلق ہیں، صنعتی مزدور بہت کم بکھرا ہوا اور کمزور ہے – حقیقتا” صنعتوں کی کمی ہے اور مزدور طبقہ کی کمی پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے پاکستان کی پسماندگی کا تدارک صنعت کاری کا تیز عمل ہے
پاکستان میں صنعتوں کی موجودہ نچلی سطح بھی ہے اور صنعتکاری کا عمل بڑھنے کے ساتھ ساتھ مزدور طبقے کا بڑھنا قدرتی ہے اس وقت بھی صنعتی مزدور طبقہ کے وجود سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ملک میں پش بٹن کارخانے نہ اس وقت ہیں اور نہ ہی مستقبل میں ان کی امید ہے کہ ہمارے صنعتکار کے لیے بھی ان کے افادیت متعدد وجوہات کی بنا پر کم ہے مثلا” اعلی ٹیکنالوجی کا مہنگا ہونا – سرمایہ کی کمی – تیز رفتار پیداوار – اس کی کھپت – عالمی مقابلہ وغیرہ پھر یہ کہ ملک کے اندر سستی لیبر وافر تعدار میں موجود ہے لہذا صنعتوں کے بڑھنے کے ساتھ مزدور طبقہ بھی بڑھے گا
طبقاتی سماج میں سیاست بھی طبقاتی ہوگی کوئی دوسری صورت ممکن نہیں ہے ہر طبقہ اپنے مسائل کے حل کے لیے اقتدار میں اپنی نمائندگی کے لیے سیاسی پارٹی تشکیل دیتا ہے – مزدور طبقہ جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں، موجود ہے لہذا وہ اپنی سیاسی پارٹی بھی بنائے گا کمیونسٹ پارٹی مزدور طبقہ کی نمائندہ سیاسی پارٹی کی حیثیت سے آج بھی موجود ہے اور کل بھی جب تک مزدور طبقہ موجود ہے باقی رہے گی
ہر پارٹی بنیادی طور پہ کسی نہ کسی طبقے یا فکر کی نمائندہ ہوتی ہے لہذا کوئ بھی پارٹی سارے عوام کی پارٹی نہیں ہوتی وہ پارٹی بھی جو امن کے مسئلہ کو عالمی انسانی بقاء کا مسئلہ کہتی ہے مزدور طبقے کا عالمی نقطۂ نظر اختیار کرتی ہے سامراجی جنگ بازوں کے نقطۂ نظر میں ماحولیات کا مسئلہ ہو، کرہ ارض کے وسائل محتاط استعمال کا مسئلہ ہو یا عالمی تقسیم محنت اور پیداوار کا مسئلہ ہو کمیونسٹ پارٹی نے ہر لڑائی مزدور طبقہ کی سوچ سے شروع کی اور واضح طور پہ ایسے موقف اختیار کیے جو مزدور طبقے کی بین الاقوامیت کا عکس ہیں
کمیونسٹ پارٹی کے موجودگی مزدور طبقہ کی سیاسی پارٹی کی حیثیت رکھتی ہے یہ ایک الگ سوال ہے کہ اس کا پاکستان میں مخصوص حالات میں کیا کردار ہے کیا یہ صرف مزدور طبقے کے مفادات کے نمائندگی کرے گی یا ملک کے محنت کش عوام کی نمائندہ ہوگی جن کے مفادات مزدور طبقے کے مفادات سے ٹکراتے ہوں یا ملک کے مزدور اور محنت کش عوام کو سرمایہ داروں کی زیر سرپرستی دینا چاہے گی اس کا رویہ مخاصمانہ ہوگا یا مثالی – اس کا پروگرام کیا ہوگا دوسروں کا اس ساتھ کیا رویہ متوقع ہے
پاکستان آج ایک ایسے شخص کی طرح ہے جو اپنے متعدد پیدائشی نقائص اور عوارضں لے کر جوان ہو گیا ہے جمہوریت یا اس کی جوانی وقت کے ایجنڈے پر ہے جو جلد یا بدیر آنا ہے لیکن فوج اور بیوروکریسی نے اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے اس کے مفلوج ہونے سے فائدہ اٹھا کر اسے سرراہ بٹھا دیا ہے ملک کے اندر رجعت پرستی- روایت پرستی اور پسماندہ معشیت نے فوج اور بیوروکریسی کو اقتدار پر قبضہ رکھنے کا موقع فراہم کر رکھا ہے
صنعتکاری کا عمل اس وقت ملک کی شدید ترین ضرورت ہے لیکن نہ تو ملکی سرمایہ دار کو نہ ہی بیرونی سرمایہ دار کو قابل اعتماد فضا نظر آرہی ہے لہذا سرمایہ کاری کے امکانات بہت کم ہیں پنجاب کے کچھ خاندان ممکن ہے کہ نواز شریف کے دور میں، اربوں روپے کے قرضوں کے کھپت دکھانے کے لیے چند چھوٹے کارخانے قائم کر لیں سرمایہ کاری نہ کرنے کے لیے سرمایہ دار ایسے مطالبات کر رہے ہیں جو کسی بھی حکومت کے لیے منظور کرنا ناممکن ہے
سرمایہ دار جائز پابندیاں تو الگ رہیں تمام حدود و قیود سے آزادی چاہتے ہیں بینکوں کو قوم ملکیت سے نکالا جائے اور پرائیویٹ بینک (سرمایہ دار کمپنیاں مثلا” الائنس موٹرز وغیرہ) قائم کرنے کی اجازت دی جائے – کپاس اور چاول کی تجارت پر زرعی اصلاحات اور ایسی صنعتی پالیسی کے حق میں ہے جس میں سرمایہ داروں کو معقول منافع کی ضمانت اور ضروری تحفظ حاصل ہو ساتھ ہی مزدوروں اور عوام کے حقوق محفوظ ہوں
قطع نظر اس کے کہ نواز شریف کی حکومت، لالچی اور خود غرض لوگوں پر مشتمل اور پاکستان کی نا اہل ترین حکومت ہے اگر سرمایہ داروں کے یہ مطالبات تسلیم کر بھی لیتی ہے تو مسائل کا وہ بھنڈارا باکس کھل جائے گا کہ کسی کے سنبھالے نہ سنبھال سکے گا سرمایہ داروں کے ان مطالبات کا مقصد سستے داموں پر سرمایہ حاصل کرنا- شدید لوٹ کھسوٹ اور ٹیکسوں کی بے روک ٹوک چوری ہے حد یہ ہے کہ یہ صنعت کار، زرعی ٹیکس کی بھی حمایت نہیں کرتے کیونکہ ان کی اپنی وسیع زرعی زمینیں ہیں جن میں پیسہ لگا کر یہ ٹیکس بچاتے ہیں معلوم یہ ہوتا ہے کہ صنعتی پالیسی کی تشکیل بھی اس حکومت کے بس کی بات نہیں
سیاسی سطح پر ہم جمہوریت کی لڑائی کو اپنے ذاتی لڑائی سمجھتے ہیں اور ایسی جمہوریت کے لیے، جدوجہد کرتے ہیں جو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں، کی جمہوریت کے لیے بجائے وسیع محنت کش عوام کی جمہوریت ہو
کمیونسٹ پارٹی ملک میں صنعتی ترقی – مزدور طبقے میں اضافے کو اور ٹریڈ یونین حقوق کے تحفظ کو ملکی ترقی کے لیے بنیادی ضرورت سمجھتی ہے
ایک بہتر صنعتی پالیسی کے لیۓ بہتر داخلہ، خارجہ، زرعی، تعلیمی اور دیگر پالیسیاں ضروری ہیں صنعتی ترقی یک رخہ عمل نہیں ہے
کمیونسٹ پارٹی کے لیے ان مقاصد کو سامنے رکھ کر جدوجہد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا کردار مخاصمانہ نہیں بلکہ ڈائنامک ہونا چاہیے جو نہ صرف اس کی پبلک لائف میں نمایاں ہو بلکہ اس کے پروگرام میں بھی ظاہر ہو تنقید اور متبادل پروگرام کے ذریعے محنت کش عوام کو اپنے گرد جمع کرنا – محب وطن طاقتوں کا محاذ بنانا وغیرہ
سرمایہ داروں سے کسی محاز میں شامل ہونے کی درخواست کرنے کا وقت گذر گیا اگر وہ خود جاگیری باقیات اور آٹوکریسی ( autocracy ) کے خلاف جدوجہد میں ہم سے تعاون کرتے ہیں تو خوب – اگر وہ تعاون نہیں کرنا چاہتے تو ہمارے کہنے سے آمادہ نہیں ہوں گے ہم ان کا انتظار نہیں کرسکتے
ایل ڈی ایف اور بائیں بازو کے محاز کی باتیں نظریاتی طور پہ درست نہیں لیکن عملا” بائیں بازو کا کردار یا کوئی موثر گروہ موجود نہیں ہے صرف طاقتور پارٹیاں جن کا عوام میں کوئی اثر موجود ہو طاقتور محاذ بنا سکتی ہیں اب جب کہ ہمارے پاس اس کا موقع ہے کہ ہم پارٹی کی شخصیت اور پہچان کو مضبوط بنا سکیں تو محاذ کے بارے میں اس وقت اور توانائی کو ضائع کرنے کے بجائے ہم پارٹی کی مضبوطی پر توجہ دیں
پارٹی کو اب تک کیڈر پارٹی کی حیثیت حاصل رہی ہے تیسری کانگریس سے اسے عوام پر کھولنے کا اعلان ہو رہا ہے لیکن چند آدمیوں کا بطور لیڈر اخبارات میں اعلان کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوا – عوام میں پارٹی کھولنے کا مقصد، پارٹی کو فنکشنل طور پہ عوام میں کھولنا ہے- ایک عوامی سیاسی جماعت بنانا ہے ورنہ جو کچھ بھی کیا جائے پارٹی کی حیثیت کیڈر پارٹی رہے گی ہمارے سامنے دوسرے ملکوں مثلا” انڈیا کی مثال موجود ہے پارٹی کو عوام کی پہنچ میں ہونا چاہیے
پارٹی کی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے تشدد کی مذمت کرنا، پرامن جمہوری طریقوں پہ یقین ظاہر کرنا ضروری ہے
پاکستان کی جمہوری جدوجہد کا جو راستہ ہمارے سامنے ہے اس پر مزدور طبقے کی سیاسی پارٹی ہی رہنمائی کر سکتی ہے
کارپوریشن ختم کیے جائیں – تمام قومی ملکیت میں لیۓ گئے اداروں کو ان کے مالکان کو واپس کیا جائے – بغیر کسی قانونی روک ٹوک کے اپنے مزدوروں کو نکالنے کا حق دیا جائے ٹیکسوں کی چھوٹ اور حکومت کی مکمل پشت پناہی انہیں حاصل ہو ان مطالبات سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ سرمایہ دار دوبارہ 22 خاندانوں کی اجارہ داری کے خواب دیکھ رہے ہیں جن کا تجارتی سرمایہ، صنعتی سرمایہ سے زیادہ تھا پھر یہ کہ اگر کسی طرح یہ صنعت کار سرمایہ کاری پر راضی ہو گئے تو بھی یہ صرف اشیائے پیداوار میں ہی سرمایہ کاری کریں گے اور بھاری صنعتیں ان کی توجہ سے محروم ہی رہیں گی
عالمی صورتحال آج ہمارے حق میں ہے ہم دوسری سیاسی پارٹیوں کی نسبت زیادہ موثر طور پر جمہوریت اور ترقی کی جدوجہد کر سکتے ہیں عالمی طور پہ کمیونسٹ پارٹیاں ایک بہتر رہنما ثابت ہو رہی ہیں اور اپنا ایک مضبوط حلقہ اثر رکھتی ہیں جیسے توڑنا ممکن نہیں
آج پریسترائیکا کو سوشلزم کی کمزوری سمجھ کر سرمایہ داری پریس اس کی تعریف میں رطب السان ہے کل سرمایہ دار دنیا کے رہنما اور پریس اس پرسترائیکا کو منہ بھر کے گالیاں دیں گے اس لیے ہمیں آج کی صورتحال سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے اور کل کے لیے بھی مضبوطی سے تیار رہنا چاہیے
(1) ایک بین الاقوامی کارپوریشن (TNC) نوٹ- ایک ایسی کمپنی جو دو یا زیادہ ممالک میں کام کرتی ہے۔
(یہ مضمون سرخ پرچم میں شایع ہوا تھا )