پردۂ زنگاری میں

تحریر – شاہد رضوی
ہم جس عہد میں زندہ ہیں اسے “عہد اتحاد سازان” کہتے ہیں وجہ تسمیہ اس کی نواب زادہ نصراللہ خان ہیں جو یک رکنی انجمن ہیں اور جس رفتار سے یہ اتحاد بناتے ہیں اس رفتار سے تو کرکٹ کے اچھے کھلاڑی رن بھی نہیں بنا پاتے امید تو یہی ہے کہ اگلے انتخابات آتے آتے نواب زادہ صاحب اتحادوں کی نصف سینچری بنا لیں گے
نوابزادہ صاحب کی طلسماتی شخصیت کا ایک اثر یہ ہے کہ بیشتر اتحاد برائے اتحاد ہوتے ہیں یعنی ان کا ایک مشغلہ جنوں کے سوا کوئی مقصد نہیں ہوتا- اتحاد سازی کی ایسی خوفیہ اور اعلانیہ تیکنیک نوابزادہ صاحب نے ایجاد کی ہے مشاہدہ حیرت زدہ اور عقل پریشان پھر رہی ہے
ہمارے کچھ دوستوں نے تو یہ بھی کہا کہ پچھلے دنوں مولانا کوثر نیازی سے ان کا اتحاد درپردہ سلمان رشدی سے تھا کہ یہ شخص ایسی بیہودہ کتاب لکھ کر سال بھر میں مشہور نہ ہو سکا ‘ہم’ اسے ایک دن میں مشہور کر دیں گے اور دیکھ لیجیے کہ سلمان رشدی کی بدنامی کو بام عروج پر پہنچانے کے بعد کوثر نیازی اور نوابزادہ صاحب سب خاموش ہیں خیر ہم نے اس لغو بات کی سختی سے تردید کر دی- مشکل یہ ہے کہ اتحاد بناتے ہیں نوابزادہ نصر اللہ خان اور نام ہوتا ہے امریکہ بہادر کا- اور ہر مرتبہ یہی ہوتا ہے- ہمیں یقین ہے کہ نوابزادہ صاحب ہر مرتبہ یہی چاہتے ہیں کہ ان کا بنایا ہوا اتحاد عوام کے حق میں جاۓ لیکن خدا جانے اس کے کیمیائی عمل میں کیا خامی رہ جاتی ہے کہ ہر اتحاد امریکہ کے حق میں چلا جاتا ہے اور عوام نوابزادہ صاحب کا منہ ٹاپتے رہ جاتے ہیں نوابزادہ صاحب کی بھی مجبوری ہے کہ اتحاد بنانے کی عادت فطرت ثانی بن گئی ہے خواہ بھان متی کا کنبہ ہی کیوں نہ بنے- لیکن بنے گا ضرور ان کے عادت کو بڑھاوا دینے والے بھی بہت ہیں وہ تمام سیاسی عناصر جو کہیں نہیں ہو سکتے اس اتحاد میں ہوتے ہیں
حال ہی میں نوابزادہ صاحب نے ایک تازہ واردات کی ہے ایک ایسا اتحاد تشکیل دیا ہے جسے وہ اتحاد نہیں کہتے امتحان بلکہ یہ مل بیٹھ کر کام کرنے کا ایک طریقہ ہے اتحاد وہ کسے کہتے ہیں اس کی تشریح آئندہ کسی موقع پر- نوابزادہ صاحب ہر اتحاد میں دوسروں کے پنجے زخمی کرا کر اپنا ہاتھ صاف بچا لیتے ہیں یہ ان کی پیشہ ورانہ مہارت کی دلیل ہے اور یہ جو ‘اتحاد’ کی تعریف انہوں نے کی ہے ایسے چٹکلے اپنے ہاتھ صاف بچا لینے میں بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں
اب جو یہ تازہ اتحاد بنا ہے اس کا ایک رکنی اصول یہ ہے کہ جمہوری حکومت کے مخالفت کی جائے کیوں کی جاۓ ؟ اس لیے کہ مخالفت ہی اصل جمہوریت ہے اور یہ وہ واحد سبق ہے جو کہ ان یک رکنی- دو رکنی اور سہ رکنی جماعتوں نے سیکھا ہے وجہ وہ احساس کمتری ہے جو ذوالفقار بھٹو کی شاندار سیاسی ذہانت کے ہاتھوں ملنے والی بدترین سیاسی شکست نے ان میں پیدا کیا ہے چھٹ بھئیوں کا ہم تذکرہ نہیں کرتے سوائے ایک کہ کہ جسکی فطرت ڈنک چلانا ہے اور جب چاروں طرف آگ گھر جائے تو اپنے ڈنک سے خودکشی کر لیتا ہے
اس اتحاد کا سب سے دلچسپ منظر ولی خان ثابت ہو رہے ہیں اتحاد ولی خان نے کیا اور جمہوریت پسند ہونے کے ناطے شرمندہ میر صاحب ہو رہے ہیں یہ بات بھی سچ ہے کہ ہاتھ ملاتے وقت جنس اور غیر جنس کا فرق تو رہنا چاہیے یہ تو نہیں کہ انسانوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے اگر کسی کا پالتو کتا بھی ساتھ موجود ہو تو اس سے ہاتھ ملا لیا جاۓ
ولی خان صاحب نے ایک ایسی بات کہی کہ بے اختیار ہمیں پیر پگارا صاحب یاد آگئے میر صاحب کے اس اعتراض پر کہ جماعت اسلامی سے اتحاد کیوں کیا- ولی خان نے فرمایا کہ یہ بات جماعت اسلامی سے پوچھی جائۓ کہ اس نے ہم سے تعاون کیوں کیا بھائی ہمیں تو یہ بات پر منطقی ہی لگی کہ خان صاحب کے اعمال کی جواب دہی بھی قاضی حسین احمد کریں- ہاں اگر خان صاحب یہ کہتے کہ ان کے اعمال کی جواب دیں بیگم ولی خان کریں تو ایک بات بھی تھی ہم بھی مان لیتے ہیں کہ سیاسی فیصلوں میں بیگم صاحبہ کا اثر یقینی ہوگا
خان صاحب اسی رو میں ایک بات اور بھی کہہ گئے کہ اگر نجیب اللۂ بنیاد پرستوں کو حکومت میں شامل کی دعوت دے سکتا ہے تو ہم بھی جماعت اسلامی سے اتحاد کر سکتے ہیں یعنی جو کچھ نجیب اللۂ کرے گا وہی ہم بھی کریں گے اور بغیر سوچے سمجھے کریں گے نجیب اللۂ کا عمل جمہوریت کو اپنے ملک میں مستحکم کرنے کے لیے ہے ہوا کرے – ہمارا عمل جمہوریت کی بیخ کنی کے لیے ہے- ہوا کرے-کرینگے ہم وہی جو نجیب اللہ کرے گا
بیگم ولی خان نے 111 کی حمایت کی تو زیادہ تعجب کی بات نہیں- قبیلہ واری نظام میں رہنے والی کسی خاتون سے رجعت پسندی کے علاوہ اور کیا توقع کی جا سکتی پھر یہ کہ صدیوں کے جبر کے نتیجے میں بعض خواتین کی عقل سلیم پر برا اثر پڑا ہے یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن ولی خان جیسے جمہوریت پسند سیاستدان اگر جماعت اسلامی جیسی کٹر جمہوریت دشمن جماعت سے اس طرح گلے ملے کہ غفور احمد اچھل کر کہیں کہ یہ اپنا بندہ ہے تو پھر میر صاحب تو بڑے لیڈر ہیں لطیف آفریدی اور افراسیاب خٹک کو اعتراض ہوا اور گو خان صاحب نے انھیں سرزنش کر دی ہے کہ نکال دیے جائیں گے لیکن بہرحال ‘مادر پدر آزاد’ جمہوریت کے ان حمایتیوں کو بھی جیسے کوئی وہ لیکن بہرحال مادر ویدر ازاد جمہوریہ تو کے بلے خان کی یہ “جمہوریت پسندی” بری لگی
اسباب و علل کے اس کاروبار میں جسے دنیا کہتے ہیں کوئی بات بلا وجہ نہیں ہوتی لہذا ہمیں یقین تھا کہ اس اتحاد کے پیچھے بھی ضرور کوئی مقصد ہے ایک سیاسی پنڈت نے بتایا کہ کہ اتحاد کا اعلان اس دن ہوا جس دن بے نظیر امریکہ پہنچی تھی یعنی امریکہ کو یہ بتانا مقصود ہے کہ یہاں سب بینظیر کے خلاف ہیں امریکہ بہادر کو چاہیے کہ بینظیر کو اہمیت نہ دے
ایک دانشوروں نے کہا کہ یہ اتحاد امریکہ نے بنوایا ہے تاکہ بینظیر پر دباؤ ڈالا جا سکے کہ بینظیر زیادہ آزادانہ پالیسیوں کا مطالبہ نہ کر سکیں ایک اور دوست کی رائے تھی کہ غلام مصطفی جتوئی جو ابھی ناچیز ہیں کو، کوئی چیز بنا دیا جائے- یہ دلیل مضبوط ہوتیں اگر ولی خان کی شمولیت کا کوئی جواز مل سکتا ایک اور نے کہہ دیا کہ یہ نیا پی این اے بن رہا ہے جو سبب ہمیں سب سے زیادہ صحیح معلوم ہوا وہ یہ تھا کہ بینظیر نے ذہانت، سیاسی تدبر اور ٹیم کے بل پر ایک سیاسی طالع آزماؤں کو میدان کے حد سے باہر ڈھکیلنا شروع کر دیا ہے لوگوں کے لیے اپنی سیاست تو رہی، سیاسی میدان میں اپنے کھڑے ہونے بھر کی جگہ کا دفاع کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے لہذا یہ اپنے دفاع میں متحد ہوئے ہیں ایک طرح سے یہ اتحاد کچھ لوگوں کا اپنی جان بچانے کا عمل ہے ایسے اتحاد کو برا کہنا کچھ اچھا نہیں لگتا مگر مشکل یہی ہے کہ زندہ جسم کی حفاظت کی جائے یا زندہ جسم کے اندر پلنے والے طفیلی کیڑے کی- عوام کی حفاظت کی جائے یا نوابزادہ- خانزادہ مخدوم زادہ -صاحبزادہ یا قاضی زادہ کی- کم از کم بات تو ہے کہ پیپلز پارٹی عوام سے کمیٹیڈ تو ہے
سوال یہ ہے کہ اتنے معمر سیاستدان اپوزیشن میں ہی کیوں جمع ہوتے ہیں مزید سوال یہ ہے کہ پھرجائیں کہاں- یہ مارشل لاء کی گود میں بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ دھکا دیدیتے ہیں کہ پہلے احتساب پھر انتخابات کا نعرہ لگاتے وقت بھی یہ لوگ جمہوریت کا نام رٹتے رہتے ہیں جمہوریت پسند کہتے ہیں کہ تم مارشل لاء کی دعوت دینے والوں میں ہو
اس ساری پوزیشن میں صرف ایک جگہ یعنی اپوزیشن باقی رہ گئی سو ان کو وہیں پایا جانا چاہیے- ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپوزیشن کو بھی تجریدی بنا دیا ہے یعنی ہر وہ معنی جو ان کا جی چاہے نکال سکتے ہیں مثلا” ایک سوال کہ جماعت سے اتحاد کیوں کیا کہ متعدد متضاد جوابات سامنے آۓ ایک جواب تو یہ تھا کہ مرضی ہماری دوسرا جواب یہ تھا کہ جماعت اسلامی سے پوچھو تیسرا جواب یہ تھا کہ وہ ہمارا گورنر رکھنے پہ رضامند ہے چوتھا جواب یہ تھا کہ جمہوری عمل ہے پانچواں جواب یہ تھا کہ بے نظیر اور آئی جی آئی کی پالیسی افغان مسئلہ پر ایک ہے لہذا ہم نے ائی جی ائی سے اتحاد کر لیا چھٹا جواب یہ تھا کہ یہ اتحاد نہیں ہے وغیرہ وغیرہ
اس سیاست میں اور مولانا فضل الرحمن کی سیاست میں تھوڑا سا ہی فرق رہ گیا ہے جو تھرڈ کلاس سیاسی مقاصد کے لیے بھی مذہب کو استعمال کرنے سے نہیں چوکے اور اسمبلی میں فرماتے ہیں کہ جو افغان مجاہدین کی مخالفت کرے وہ “مسلمان” کی اولاد نہیں – جزاک اللہ مولانا
بعض لوگوں کو پیپلز پارٹی پر یہ اعتراض ہے کہ اس کی پالیسیاں وہی ہیں جو پچھلی حکومت کی تھیں اسکی سب سے واضح مثال جو انہیں نظر آتی ہے وہ افغانستان ہے- اب ان لوگوں کو کون یہ سمجھائے کہ افغانستان کا ایک حصہ اقوام متحدہ کو دینے کے بات جس طرح بے نظیر نے کی کوئ اور نہیں کر سکتا- بے نظیر کی خود اعتمادی کا یہ عالم ہے جیسے یہ افغانستان کی بھی وزیراعظم ہیں نیت یہ ہوگی کہ افغان مہاجرین کی مصیبت افغانستان میں ہی رہے- اقوام متحدہ ان لوگوں کو ان کے علاقوں میں آباد رہنے میں مدد کرے – کیونکہ لند خور خان بن سعدان خان کی بہادری کے داستان بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہو رہی ہیں
بینظیر کی امریکہ میں تقاریر میں ایک بات ہم نے بھی نوٹ کی اور وہ یہ کہ امریک زعماء اپنی تقاریر میں پاکستان اور امریکہ کے مشترکہ مفاد کے اعلانات اسٹیج سے بار بار کرتے رہے جبکہ بینظیر کا زیادہ زور جمہوریت اور خوشحالی پر رہا اب اگر اس میں کسی کو کوئی تبدیلی نظر آجائے تو سبحان اللہ- نہ نظر آئے تو ان کی مرضی- ذوالفقار علی بھٹو کو دیکھنے میں یہ لوگ کلر بلائنڈ تھے اگر آج بھی انہیں خارش چشم مفادات کی بنا پر بینظیر حکومت آمریت کے مقابلے میں فرق نہیں لگ رہی ہے تو بینائی کے مکمل زیاں کے بعد انہیں بھی فیصل مسجد کے احاطے میں دفن کرنا ہوگا
ہم نے جان بوجھ کر ایک ذات شریف کا تذکرہ نہیں کیا وجہ یہ ہے کہ ان کی ساری ڈوریاں جماعت اسلامی کے ہاتھ میں ہیں یہ خود نہیں ہلتے، ہلائے جاتے ہیں