پاکستان اسٹیل ٹاؤن شپ کے مسائل

اسٹیل ملز کی انتظامیہ اور مولانا کی بد دعائیں
تحریر – شاہد رضوی
ٹاؤن شپ میں رہنے والوں کا دعوی ہے کہ وہ سب حضرت ابوذر غفاری کی نسل سے ہیں ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جو مظلومیت حضرت ابوذر غفاری کے ساتھ تھی وہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے بڑھتے ہم تک پہنچی ہے
ہمیں ابوذر غفاری کا جرم تو معلوم نہیں لیکن تاریخ سے ایسے بھی نابلد نہیں کہ ان کی سزا بھی معلوم نہ ہو مدینے سے 12 پتھر باہر کر دیے گئے تھے ہم ان سے بھی ایک دو پتھر یعنی میل دور ہیں وہ بھی جنگل میں تھے ہم بھی جنگل میں ہیں ان کو بھی کوئی پوچھنے والا نہیں تھا ہم بھی لاوارث شمار ہوتے ہیں بعض اور باتوں میں ہماری بے بسی کچھ زیادہ ہے ان کے سامنے سے کئی سال چھ مہینے میں اونٹوں کا ایک قافلہ گزرتا تھا جس کو دیکھ کر اپنی جلاوطنی یاد آتی تھی اور یہاں اومنی بس اور ٹھٹھہ کی بس ہر وقت ہماری جلاوطنی کے زخم کو تازہ رکھتی ہے
وہاں انہیں سبزی اور پھل مفت مل جاتے تھے یہاں ہمیں اس قیمت میں ملتے ہیں کہ جس کی پہنچ صرف سکہ ڈھالنے والوں کو ہی ہوتی ہے وہ سبزی اور پھل استعمال کر لیتے تھے ہم دیکھ کر ہی جی لیتے ہیں وہ جہاں بیٹھے تھے وہاں کا کوئی کرایہ نہیں تھا ہمیں ایک تہائی تنخواہ کرایہ میں دینا پڑتی ہے ان کی کوئی تنخواہ نہیں تھی لہذا کوئی حسرت بھی نہیں تھی انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں تھی کہ تنخواہ کو تین حصوں یعنی کرایہ، کریانہ اور آمدورفت (یعنی بس کے کرائے) کی مد میں تقسیم کریں اور باقی ضروریات کے لیے ہر جمعہ کو ٹھٹہ کی شاہی مسجد یا بولٹن مارکیٹ کی میمن مسجد پر کھڑا ہوا کریں انہیں کوئی جگہ سے اٹھانے والا بھی نہیں تھا جبکہ اپنے علاقے میں روزانہ رات کو سیکیورٹی والے ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ کسے مکان سے دھکا دے کر نکالا جائے ہم تو خیر پڑوسی سے کہہ کر دروازے کے باہر تالا ڈلواتے ہیں دوسرے بہت سے زد میں آگئے تھے جو اب گھارو اور ٹھٹھہ کے راستے پہ جھگیاں ڈال کے رہ رہے ہیں جب کرایہ مکان نہیں تھا تو کرایہ بڑھنے کی بھی کوئی صورت نہیں تھی ہمارا کرایہ تنخواہ میں بڑھتا تو ہے لیکن ہمیں کیا معلوم شہر کے مالک مکان تو نوٹس دیتے تھے یہاں تو کوئی یہ بھی نہیں کہتا کہ بھائی تم شرمندہ نہ ہو تمہارا کرایہ مکان اچھے تناسب سے بڑھتا ہے اور نہایت مناسب طریقے سے کٹ جاتا ہے جہاں حضرت ابوذر غفاری تھے وہاں کوئی مارکیٹ نہیں تھی لیکن یہاں تو ہے اور حسرت خریداری بھی کیونکہ مارکیٹ میں اشیا کے قیمتوں کا تعین اس طرح ہوتا ہے کہ منڈی سے یہاں تک باربرداری اگر 100 روپیہ ہے تو ہر شے کی فی من قیمت میں 100 روپیہ بڑھ جاتا ہے
اس زمانے میں پان سگریٹ کا رواج نہیں تھا لیکن یہاں تو ہے ایک انتہائی دیندار مولانا جو اسٹیل ملز کے ملازم بھی ہیں اور دکاندار بھی 100 فیصد منافع لے کے کوک وغیرہ فروخت کرتے ہیں اور پان کی اکلوتی دکان کے مالک ہیں اور نہایت ایمانداری سے قسم کھاتے ہیں کہ کوک اور پان کی دوسری دکان یہاں قائم نہیں ہونے دیں گے سنا ہے انتظامیہ بھی ان کی بددعاؤں سے ڈرتی ہے
پہلے زمانے میں لوگ پیسہ نہ جمع کرتے تھے نہ خرچ کرتے تھے ہمارا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے لیکن پھر بھی بینک کی ضرورت اس لیے ہے کہ جعلی چیک دیا جا سکے بینک اکاؤنٹ کا رعب ڈالا جا سکے اور لوگوں کو یہ تسلی دی جا سکے کہ بھائی ذرا بینک جا رہا ہوں پیسہ نہیں ہے تو نہ ہو ساکھ رکھنا ضروری ہے شہر سے دور ہونے کا ایک فائدہ بھی ہے
کچھ وہاں پہلے ہم نے ایک صاحب کو بڑے رعب کے ساتھ جعلی چیک دے دیا ہمیں یقین تھا کہ وہ صاحب یہاں تک آنے کی ہمت نہیں کر سکتے آٹھ ماہ سے ہم مطمئن بیٹھے ہیں شہر ہم جا نہیں سکتے وہ یہاں آ نہیں سکتے ان صاحب نے خط اور رجسٹریاں ضرور بھیجی ہوں گی مگر یہاں ڈاکخانہ ہی نہیں ہے پرانے علاقے میں ایک ڈاکخانہ ہے سو وہ صرف ہفتے میں ایک مرتبہ ڈاک لے جانے کا گنہگار ہے سنا ہے اسٹیل ملز والے نامہ بر کبوتروں کی اسکیم پر غور کر رہے ہیں ڈاکخانہ نہ ہونے ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہماری بیوی جو ہر ہفتے اپنے بھائی کو ہنولولو میں، بھابھی کو فلپائن اور چچا کو ٹمبکٹو میں خط لکھتی تھی وہ بچ گئیں
ہم تو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جو عزیز ہمارے کراچی میں ہیں ہم ان کی خیریت سے اور وہ ہماری خیریت سے بالکل مطمئن ہیں ورنہ ٹیلیفون نہ ہونے سے بڑی دقت ہوتی ہے اگر انتظامیہ یہی اجازت دیدے کہ قریب میں جو ڈائریکٹروں کے بنگلے ہیں وہاں سے لوگ شہر فون کر لیا کریں تو بھی بڑی آسانی ہو جائے گی
انتظامیہ ایک اجازت اور بھی دیدے کہ پہاڑی سے پیچھے جو زمین پڑی ہے وہاں لوگ اپنی اپنی قبریں خود کھود کر تیار رکھیں مرنے سے کچھ دیر پہلے جا کر لیٹ سکیں تو مرنے والے کو بھی بڑی آسانی ہو جائے گی اور حضرت ابوذر غفاری کے ماننے والے دعا گو رہیں گے