پاکستان آیا تو کیوی درویشی چھوڑ کر اعلی پائے کا اسمگلر بن جائے گا

کیوی اور بیوی میں مماثلت محض اتفاقی ہے' ہمارا کوئی قصور نہیں

تحریر – شاہد رضوی

ففٹی ففٹی والوں نے جب سے ‘کیوی’ کا قافیہ ‘بیوی’ سے ملایا ہے لوگوں کے دل میں ایک نیک دل شریف پرندے کے خلاف شکوک بیٹھ گئے ہیں ہم چونکہ ہر ظلم کے خلاف ہیں اور مظلوموں کی ہمدردی میں ہمیشہ ہم پر رقت طاری رہتی ہے اس لیے کیوی کے خلاف ففٹی ففٹی والوں کی اشتعال انگیزی اور تہمت تراشی کو برداشت نہیں کر سکے ہم پھر بھی چپ رہتے اگر ایک دوست یہ کہتے ہوئے نہ پاۓ جاتے کہ “بیوی کا ہم قافیہ ہر لفظ کائنات کا واہیات ترین لفظ ہے” اس بنا پہ ہمیں کیوی کی مدافعت کرنی پڑی- ہماری نیت تو نہیں تھی پھر بھی اس مضمون میں “بیوی اور کیوی” کا ایک تقابلی مطالعہ شامل ہو گیا جو سوشیالوجی کے طلبہ کے کام آسکتا ہے سب سے پہلے تو ہم نے یہ تحقیق کی کہ “کیوی” رہتا کہاں ہے؟

اس پرندے پر اتنی درویشی طاری ہے کہ کوئی شخص یقینی طور پہ اس کی جائے رہائش نہیں بتا سکا کسی نے کہا سوئزر لینڈ میں رہتا ہے کسی نے کہا قطب شمالی کے آس پاس پایا جاتا ہے یہ بات بہرحال یقین سے کہی گئی کہ کسی ایک جگہ رہتا ہے دونوں جگہ نہیں ہوتا- یعنی بیوی کی طرح نہیں کہ جہاں ہے تو وہاں ہے لیکن جہاں نہیں ہے وہاں بھی ہے بلکہ جہاں نہیں ہونا چاہیے وہاں بھی ہے

سنا ہے اس کا سایہ بھی چند مربع انچ قطعہ زمین تک محدود رہتا ہے نہ تو وسیع اور عریض رقبے تک پھیلتا ہے نہ ہی سمندری حدود پار کر کے دوسرے ملکوں تک جاتا ہے اس کے فقیر منش ہونے سے ایک نقصان یہ ہوا کہ ہمیں اس کے گھر یا گھونسلے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا کیونکہ یہ گھر بناتا ہی نہیں جہاں رات آئی سو گئے صبح اٹھے چونچ زمین پہ رگڑی اور آگے چل دیے گھر بناتا تو اسے مسہری لا کر رکھتا، ڈائننگ ٹیبل لاتا، ریفریجریٹر، کوئی ڈیکوریشن پیس لاتا، پھر پڑوسیوں کو دیکھ کے ہر سال ان کے ماڈل بدلتا اس چکر میں دوسرے پرندوں کے پوٹے میں سے بھی چونچ ڈال کر دانے نکال لیتا- ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اسے دعوت دے کے پاکستان بلا لیں کم از کم فقیر منش ہونے کی عادت تو یہاں چھوٹ جائے گی اور عین ممکن ہے کہ چند ہی دن میں ی کیوی ایک اعلی پائے کا سمگلر بھی بن جاۓ

اب تک تو یہی سنا ہے کہ بے انتہا شریف النفس جانور ہے اس کی شرافت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اج تک وہ اپنے علاقے کی سیاست میں ملوث نہیں ہوا اس کی ہیت اور شکل و صورت کے بارے میں بوٹ پالش والوں کے اشتہار سے زیادہ دھوکہ مت کھائیے گا کیونکہ اس اشتہار میں تو وہ کسی کمپنی کا مینجنگ ڈائریکٹر معلوم ہوتا ہے حقیقت میں کیوی میں نہ تو اتنی اکڑ ہے موجود ہے اور قدم اٹھانے کا یہ اشتہاری انداز- خاصی شریف معقول چال اور منکسر المزاج گردن ہوتی ہے اس کی مسکین صورت الیکشن میں ہارے ہوئے سیاستدان یا دیوالیہ دکاندار سے ملتی جلتی ہے ہارے ہوئے سیاستدان کی مثال دے کر آپ کی یاداشت کو زحمت دینے پر مجھے افسوس ہے تاریخ کی پرانی کتابوں میں تلاش کرنے سے الیکشن کا تذکرہ مل جاۓ گا

ہم اسے حیا اور شرم ہی کہیں گے کہ ہمیشہ آنکھیں اور گردن جھکا کے چلتا ہے اور خدا جانے کے کیوں بعض خواتین کے خیال میں یہ گنہگار اور مجرم ضمیر ہونے کے علامت ہے ہم ان کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں کیونکہ ہم نے گنہگاروں اور مجرم ضمیروں کو جلسوں میں تقریر کرتے اور پبلک کو ڈانٹتے سنا ہے یعنی وہ قطعی آنکھیں نہیں جھپکاتے ہیں

اس پرندے نے نہ تو اپنی تاریخ خود لکھی ہے اور نہ ہی کسی کو لکھنے کی ترغیب دی ایسا کیوں ہوا اس بارے میں صرف قیاس آرائیاں ہیں اس معاملے میں وہ ذرا چوک گیا کیونکہ ‘بیوی’ کی تاریخ مصدقہ و مسلمہ پیدائش سے بیوہ ہونے تک مسلسل دستیاب ہے جس میں حضرت حوا سے آج تک کی بیویوں کی داستان تحریر ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ اس کی تاریخ بھی قدیم ہوگی کیونکہ اسے پرندہ کہتے ہیں جبکہ پر برائے نام اور نہایت مختصر لگے ہوئے ہیں یعنی تھے ضرور کسی زمانے میں مگر استعمال نہ ہونے سے ختم ہو گئے اس تاریخ میں جس کے بوسیدہ اوراق بھی اب دستیاب نہیں یہ تحریر ہے کہ کیوی بلندیوں پہ اڑتا تھا ایسے نہیں جیسے آج کل لوگ کراچی سے اسلام آباد اڑا کر بلائے جاتے ہیں بلکہ خود اڑتا تھا اور یہ بھی نہیں تھا کہ ہمارے پرندوں کی طرح سے ٹیڑھا اڑے بلکہ سیدھا اڑتا تھا ‘بیوی’ کی طرح چٹکیوں میں اڑانے والی بات بھی اس میں نہیں تھی بلکہ صرف اڑتا تھا یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس نے خط لکھ کر درخواست کی تھی کہ اس کے پر ختم کر دیے جائیں یا یہ تعزیری قوانین اور آسٹریلیا یا قطب شمالی میں کسی مارشل لاء کے نفاذ کی وجہ سے چھانٹ دیے گئے

اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بالغ ہونے کے بعد کسی کیوی کے وزن یا حجم میں اضافہ ہوا ہو تمام جانداروں میں یہ اعزاز صرف ‘بیوی’ کو حاصل ہے کہ شادی کے بعد وزن و حجم میں روزانہ اضافہ غالبا” روشنی کی رفتار سے ہوتا ہے بعض لوگ تو بیوی کے ساتھ اس لیے باہر نہیں نکلتے کہ بیوی کے چلنے سے ہوا میں جو تموج پیدا ہوتا ہے وہ انہیں اڑا کر دور نہ پھینک دے

‘کیوی’ ایک قناعت پسند پرندہ ہے تیتر اور بٹیر نہیں کھاتا بلکہ دانے دنکے پر گزارا کرتا ہے مادہ کیوی بھی ایک کم گو پرندہ ہے اس کے نہ بولنے کی عادت کے بنا پہ اس کی پوری نسل کو نقصان برداشت کرنا پڑا اور نظریہ اضافیت کا اعزاز ہے کہ انسان نے حاصل کر لیا یعنی توانائی- کمیت اور روشنی کا رفتار کا نظریہ آئینسٹائین کے ذہن میں اس وقت گونجا جب مسز آئینسٹائین نے اس عظیم سائنسدان کو بیگن کے سینڈوچ نہ کھانے پہ مسلسل گیارہ گھنٹے لیکچر پلایا بیگم کی توانائ کا انداز کريۓ

Scroll to Top