مفت مشورے

تحریر – شاہد رضوی
انجمن رجسٹرڈ احمقان پاکستان کے صدر اور سیکرٹری بھی آپس میں بہت لڑتے ہیں لیکن ایسی فاش غلطی وہ بھی نہیں کرتے کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف ایک ہی عقلمند سے صلاح مشورہ کریں صلاح مشورہ دونوں کرتے ہیں لیکن الگ الگ لوگوں سے مثلا صدر صاحب میرے پاس آتے ہیں تو سیکرٹری صاحب اورنگی ٹاؤن میں کوئی مشیر رکھتے ہیں اور ہونا بھی یہی چاہیے یہ نہ ہو کہ ایک ہی پہلوان کے دو پٹھے یا شاگرد آپس میں لڑ گئے
کشتی کا بھی اصول یہی ہے کہ ممدو پہلوان پٹھا جیسا پہلوان کی کشتی شیدا پہلوان پٹھا موالی—– پہلوان سے ہو اگر ایک استاد کے دو پٹھے آپس میں لڑیں تو لوگ اسے نورا کشتی کہنے لگتے ہیں لیکن خدا جانے ہمارے سیاست دانوں کو کیا ہوا ہے جیسے دیکھو صدر ریگن سے ملنے چلا جا رہا ہے کوئی جا رہا ہے کوئی آرہا ہے سب ایک دوسرے کے خلاف مشورے لینے وہیں پہنچتے ہیں اور واہ رے صدر ریگن ہر ایک کو گلے لگا کے ایسا صائب مشورہ دیتے ہیں کہ ہر مشورے کے عوض ان کے پرانے فوجی سامان کی کھیپ اور بک جاتی ہے ہمیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ان لوگوں کی سمجھ بوجھ پر، حساب پر سے ہمارا اعتماد ہٹ گیا ہے جب سے 1+1+1/2+1/2=4=1 ہونے لگے ہیں لیکن پھر بھی جس طرح 2+2=4 ایک کلیہ ہے اسی طرح ہم اسی طرح دشمن کا دوست دشمن ہوتا ہے یہ بھی کلیہ کے ساتھ سارے دشمنوں کا دوست تو لازمی سب سے بڑا دشمن ہوتا ہے یعنی وہ جو ہر ایک کا دوست ہوتا ہے
صدر ضیا کے مارشل لاء کا دوست ریگن جونیجو کی جمہوریت کا حامی ریگن، بے نظیر کے انقلاب کا حمایتی ریگن، جتوئی کے عزائم کو آشیر باد دینے والا ریگن، جی ایم سید کی علیحدگی پسندی کا حامی ریگن، کیا غضب کا ایکٹر ہے اور قیافہ شناس ایسا ہے کہ جیسے جونیجو صاحب وہائٹ ہاؤس پہنچے ان کے چہرے سے ان کے سوال پڑھ ليۓ اور انہیں منتخب حکومت کا وزیراعظم قرار دیا یعنی وہ بات زور سے کہہ دی جیسے خود جونیجو صاحب بھی آہستہ سے کہتے ہیں ہمارا قیاس ہے کہ جونیجو صاحب نے جام ساقی اور دوسرے سیاسی قیدیوں کی رہائی کے بارے میں مشورہ مانگا ہوگا ہمیں یقین ہے کہ صدر ریگن نے کہا ہوگا کہ جو یہاں ہے وہیں ٹھیک ہے ممکن ہے کہ جونیجو صاحب نے یقین دہانی مانگی ہو کہ ان کی حکومت کے خلاف مارشل لاء نافذ نہیں ہوگا ہمیں یقین ہے کہ صدر ریگن نے زور سے سر ہلا کرہاں کی ہو گی
مثل مشہور ہے کہ بنیے کا لونڈا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے ریگن نے بھی ہاں اس لیے کی ہو گی کہ اگر جونیجوصاحب وہی امریکی پالیساں چلا رہے ہیں جو صدر ضیا کے مارشل لاء میں چل رہی تھیں یعنی پرانے امریکی فوجی ساز و سامان کے خریداری جاری ہے افغان انقلاب کے خلاف مجاہدین کی امداد چل رہی ہے روس سے دوستی کا کوئی امکان آس پاس نہیں
مجال ہے جو ملک کے اندر سیاسی قیدیوں کی تعداد کا معیار ذرا بھی گھٹ جائے ہندوستان کتنا ہی قریب سہی لیکن امریکہ جتنا تو قریب نہیں کیونکہ قربت تو دل سے ہوتی ہے ملک کو زرعی رکھنا کہ ریگن کو ہریالی بہت عزیز ہے اور پھر صدر ریگن کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہ کرنے والا- بھلا اب بھی ریگن زور زور سر نہ ہلائیں گے
ہمیں تو یقین تھا ہی اب تو آپ کو بھی یقین آگیا ہوگا کہ جمہوریت کا پہلا مرحلہ امریکی سامراج مردہ باد کا ہے اس نعرہ کے بغیر اور اس کے عملی پروگرام کے بغیر اگر کوئی جمہوریت کا راگ الاپتا ہے تو وہ ریگن صاحب کی بین بجا رہا ہے
یہ قوم کے حق میں کچھ اچھا نہیں ہوا کہ ہم بڑے سیاسی لیڈر نہ بن سکے اگر بن گئے ہوتے تو شو پنہار کی کسی مشہور دھن میں “پاکستان امریکی سامراج کا قبرستان ہے” گاتے اور عام فوجی، عام طالب علم، ہم مزدور، عام کسان کو سناتے ہیں کہ ان سے بڑا محب وطن کوئی نہیں اور ہماری مصدقہ اطلاعت کے مطابق ان میں سے کوئی بھی ریگن صاحب سے مشورہ کرنے نہیں جاتا
خاص طور پر جونیجو صاحب سے ہم کہیں گے اگر مشورہ کرنا ضروری نہیں ہے تو نیاز ابڑو، علم دین، عبداللہ بروہی اور گل رحمان پر مشتمل ایک مجلس مشاورت بنا لیں ان سے بہتر مشورہ دینے والا کوئی مل جائے تو ہمارا ذمہ