شیعہ سنی فسادات -ایک تجزیہ

تحریر – شاہد رضوی
شیعہ سنی فسادات ایک مذہبی مسئلہ نہیں ہے بلکہ سیاسی مسئلہ ہیں کیونکہ ان کے اسباب اور ان کا حل مذہب میں نہیں ہے بلکہ عوام کے سیاسی عمل میں ہے
حالیہ شیعہ سنی فسادات پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے عموم فسادات کا ایک حصہ بھی ہیں اور تسلسل بھی- احمدیوں کے خلاف فسادات نے پاکستان کو پہلے بار مارشل لاء کی لعنت سے روشناس کیا ہندو اقلیت کے خلاف سندھ میں قتل عام کا بازار گرم کیا گیآ اور شیعہ سنی فسادات کبھی بڑے اور کبھی چھوٹے پیمانے پہ وقفے وقفے سے اس طرح ہوتے رہتے ہیں کہ تسلسل برقرار رہے اور نفرت کا لاوا ٹھنڈا نہ ہونے پائے- اگر ہم ان فسادات کے علیحدہ علیحدہ واقعات کا تجزیہ کریں تو کسی ایک فساد کے واقعہ کے لیے کوئی معقول وجہ نظر نہیں آئے گی اور جن لوگوں کی جانیں ضائع ہوتی رہیں وہ صرف خون ناحق میں شمار ہوں گی سنی بھی مرے اور شیعہ بھی کیونکہ چلتے ہوئے ہتھیار نام مذہب فرقہ نہیں پہچانتے صرف لہو کا ذائقہ پہچانتے ہیں اور جب اشتعال کم ہو جاتا ہے تو جذبات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں تو اس وقت سب کو مرنے والوں کا دکھ ہوتا ہے کیونکہ لوگوں کی کوئی بیوہ ماں کا سہارا تھا کوئی بہنوں کا اکلوتا بھائی اور کسی کے چھوٹے چھوٹے بچے لوگوں کی ٹھوکروں کا شکار ہو جاتے ہیں یہ سب کچھ ہوتا ہے اور چند ہفتوں یا چند مہینوں کے بعد پھر کہیں نہ کہیں فساد ہو جاتا ہے پھر جانیں ضائع ہوتی ہیں اور لوگ اپنے عزیزوں کو روتے ہیں سوچیۓ کہ ایسا کیوں ہوتا ہے
ہم بازار میں سودا خریدتے وقت کبھی یہ نہیں دیکھتے کہ دکاندار شیعہ ہے یا سنی شادی کے دعوت نامے دیتے وقت بھی ہم شیعہ اور سنی دوستوں میں فرق نہیں کرتے اور تعزیت دیتے وقت یا قبول کرتے وقت بھی یہ نہیں دیکھتے کہ تعزیت دینے والا یا لینے والا شیعہ ہے یا سنی- اورضرورت پڑنے پر رات کے دو بجے بھی اپنے پڑوسی کی آواز پر گھر سے باہر نکل آتے ہیں زندگی کا ایک ایک لمحہ ساتھ رہتے ہیں آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم ایکا ایکی ننگی موت کے سائے میں ناچنے لگتے ہیں
ہمارے اندر تو پیار محبت دکھ سکھ کا ساتھ اور گل گوتھنے بچوں کا پیار بھرا ہوا ہے ہمارے اندر تو کوئی کھوٹ نہیں ہے پھر یہ کون ہے جو ہم سے صبح کے جھونکوں کی خوشبو چھین کر لہو کی پیاس بھر دیتا ہے اور ہمارے ہاتھ میں چھری تھما دیتا ہے جس کی تیز دھار کی چمک پہلے ہماری ہی آنکھوں کو کاٹ دیتی ہے وہ کون ہے جو ہمارے ہاتھوں میں چھری تھما کر ہم سے ہمارے ہی گلے کٹوا دیتا ہے اس ہاتھ کو ہم یقینا ڈھونڈ لیں گے
جب اس ملک میں آئے تھے تو خوشحالی اور بچوں کے بہتر مستقبل کے امیدیں لے کر آئے تھے ایک اسلامی نظام کا تصور لے کر آئے تھے جس میں سب کے ساتھ انصاف ہوگا یہ امیدیں آج بھی وہیں ہیں جہاں تقسیم کے وقت تھیں غیر یقینی مستقبل بچوں کا نگراں ہے اعلی تعلیم ان کے لیے ہے جو بھاری فیسیں دے سکیں بچی کے شادی کے لیے اسلامی جہز نہیں چاہیے گرین کارڈ چاہیے تعلیم اور روزگار کے یکساں مواقع تو الگ رہے ان کا مطالبہ کرنے کا بھی حق نہیں ہے محنت کا صلہ آج بھی خو اری ہے بے روزگاری عروج پر ہے اور قرض کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے کیوں؟ اس لیے کہ پاکستان بنانے والے ہاتھ اور تھے اور پاکستان سے فائدہ اٹھانے والے اور- کروڑوں ننگے بھوکے محنت کرنے والے ہاتھ ایک طرف تھے اور چند ہزاروڈیروں، جاگیرداروں اور زمینداروں کے ہاتھ دوسری طرف اور ان ہی کا پلہ بھاری تھا کیونکہ ساری زمینوں پرقبضہ ان کا تھا اور ان زمینوں کا گیہوں بھوکے ننگوں کو کھلانے کے لیے نہیں تھا بیچنے کے لیے تھا اور کپاس ان کا تن ڈھانکنے کے لیے نہیں بلکہ دولت کا کے انبار جمع کرنے کے لیے تھی لہذا ان ننگے بھوکوں سے اسلام کے نام پر ملک کے نام پر مزید قربانیاں مانگی گئیں انہیں مشغول رکھنے کے لیے کلیموں میں الجھا دیا گیا کہ روزگار اور سماجی انصاف کے خواب ان کلیموں سے پورے ہوں گے ان کلیموں سے وڈیروں کا ساتھی چھوٹا زمیندار تو پیدا ہو گیا لیکن ننگے بھوکے ہاتھوں کے تو خواب تباہ ہو گئے کیونکہ وڈیرہ تو ہاری کے بیٹے کو ہاری اور منشی کے بیٹے کو منشی ہی رکھنا چاہتا ہے اور غریب کو غریب رکھتا ہے تاکہ کوئی اس کی ناانصافی کے خلاف نہ اٹھے لوگوں نے پھر بھی مطالبہ کیا کہ وڈیرہ شاہی ختم کرو تاکہ جو پیسہ وڈیرے کی جیب میں جاتا ہے اس سے کارخانے لگیں روزگار بڑھے آمدنی بڑھے اور ہمارے خواب پورے ہوں اور تب ایک اور سازش ہوئی وڈیرے کے آدمیوں کی حکومت نے دوسرے ملکوں سے قرض لے کر کارخانے لگائے کارخانے لگے اور روزگار بڑھا لیکن وہ قرض کے اربوں ڈالر ہم لوگوں کو ادا کرنے تھے اور منافع کارخانے دار کی جیب میں جانا تھا سو ٹیکس ہم پر بڑھ گئے اور منافع بائیس خاندانوں میں تقسیم ہو گیا کارخانے داروں کا جب مال نہیں بکتا تھا تو وہ امریکہ سے اور قرض لے لیتے تھے اور اس کا بوجھ بھی ہم پر ڈال دیتے تھے ہم جب بوجھ کی شکایت کرتے تو ہم سے کہا جاتا کہ ایسی باتوں سے اسلام خطرے میں پڑ جائے گا اور پاکستان خطرے میں پڑ جائے گا اور ہمیں ہندوستان سے ابھی کشمیر لینا ہے کیونکہ وہاں کے مسلمانوں کو آزاد کرانا ہے وڈیرہ بھی یہی کہتا تھا اور یہ بھی یہی کہتے تھے ملک کھوکھلا ہو رہا تھا- قرض کا بوجھ بڑھ رہا تھا- وڈیرہ اور سرمایہ دار ملکی دولت امریکی قرض میں زیادہ سے زیادہ اپنا حصہ نکالنے پر لڑتے رہتے تھے سو حکومتیں ٹوٹتی بنتی رہتی تھی صبح ایک وزیراعظم ہوتا تو دوپہر کو دوسرا اور شام تک تیسرا وزیراعظم حلف اٹھاتا ہوا ملتا پھر ایوب خان نے دس سال تک کارخانے داروں پر ایک پیسہ ٹیکس نہیں لگایا وہ ٹیکس بھی ہم سے ہی وصول کیا گیا
ہمیں تو کچھ بھی نہیں چاہیے تھا نہ منافع نہ دولت نہ زمین ہمیں تو اپنے خواب چاہیے تھے آزاد دلیر باعزت زندگی کے خواب- صحت تعلیم اور ایک چھوٹے سے گھر کے خواب- روزگار کے خواب- لیکن ان میں سے کوئی بھی خواب پورا نہیں ہوا اس لیے کہ جن پیسوں سے ہمارے خواب پورے ہونے تھے وہ وڈیروں کی جیب میں جاتا تھا اور کارخانے داروں کی جیب میں جاتا تھا اور وہاں سے باہر جاتا تھا اور ان قرضوں کی ادائیگی میں جاتا تھا جو ہمیں بتائے بغیر ہمارے نام پہ آتے تھے
جب وڈیرا شاہی تھی تو ملا وڈیرے کا کھاتا تھا اور ہمیں سمجھاتا تھا کہ وڈیرہ شاہی کو بھی کو خدا نے بنایا ہے اس نظام کے خلاف سوچنا بھی کفر ہے اور یہ ہمیشہ ایسے ہی رہے گا پولیس بھی وڈیرے کے ساتھی تھی اور حکومت بھی- جب وڈیرہ شاہی بکھرنے لگی تو پولیس- حکومت اور ملا سب کے سب وڈیروں اور کارخانے داروں کے گٹھ جوڑ کے ساتھ ہو گئے ملا نے اب ہمیں سمجھایا کہ اسلام میں ملکیت مقدس ہوتی ہے چھوٹی ملکیت نہیں صرف بڑی ملکیت مقدس ہوتی ہے اور محنت کشوں کی قوت محنت جو ملے تو انہی کی ملکیت لیکن مقدس نہیں ہے صرف کارخانے مقدس ہیں کوٹھیاں، بینک بیلنس مقدس ہیں اور امریکہ سے ہمارے رشتے مقدس ہیں کیونکہ وہاں سے قرض ملتا ہے اور اس قرض سے اسلامی حکومت اور پاکستان مضبوط ہوتا ہے
استحصال کرنے والوں کے ہاتھ میں مذہب سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے جو عوام کے خلاف استعمال ہوتا ہے کیونکہ لوگوں کو اپنے مذہب سے بڑی محبت ہوتی ہے اور اس کا فائدہ جو وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو لوٹ کھسوٹ کو چھپانے کے لیے اسلام کا پردہ تان لیتے ہیں اور ایسی سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں جو وڈیروں اور کارخانے داروں کے چندہ پر چلتی ہیں اور امریکی ڈالروں پر چلتی ہیں اور استحصال کرنے والوں کے مفاد کو عوام کے غیض و غضب سے بچاتی ہیں یہ پارٹیاں ہمیں سمجھاتی ہیں کہ کارخانوں کو قومیں ملکیت بنانا اسلام میں جائز نہیں- ہاری کا زمین پر قبضہ کرنا حرام ہے- غیر ملکی کمپنیاں جو ہمارے ملک سے ایک روپے پر پانچ سو روپے سے زیادہ منافع حاصل کر کے اپنے ملک میں لے جاتی ہیں وہ ہم پر احسان کرتی ہیں امریکی قرضوں کا ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے اور عوام کو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے
یہ اسلام وڈیروں اور کارخانے داروں کا اسلام ہے اور ان کا نمک کھانے والے ان کے حواریوں کا اسلام ہے جس میں عوام کی جگہ نیم غلاموں کی صفمیں ہے جن کے فرائض تو ہوتے ہیں حقوق نہیں ہوتے
یہ اسلام غریبوں کی دستگیری کرنے والے اور غلاموں کو پناہ دینے والے رحمتہ العالمین کا اسلام نہیں ہے جنہوں نے چراگاہوں کو مشترک قرار دیا تھا اور جن کے ایک اشارے پر انصار نے مہاجرین کو اپنے جائیدادیں اور اثاثے دے دیے تھے جو سرور عالم تھے اور جو کی روٹی کھاتے تھے اور مسلمانوں کو دولت جمع کرنے سے منع فرماتے تھے اور بیت المال کو عام مسلمانوں کی ملکیت قرار دیتے تھے
یہ حضرت صدیق اکبر کے عہد کا اسلام بھی نہیں جو حقدار کا حق دلوانے کے لیے تلوار بلند کرنے کا اعلان کرتے تھے اور یہ حضرت عمر فاروق کے عہد کا اسلام بھی نہیں جو اس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں اٹھتے تھے جب تک کہ بیت المال کا سارا مال تقسیم نہیں ہو جاتا تھا اور جو بیوہ کے بچوں کے لیے اپنے کاندھوں پر آٹا اور تیل لاد کر لے جاتے تھے یہ حضرت علی کے عہد کا اسلام بھی نہیں ہے جو فرماتے تھے کہ دولت غضب شدہ حقوق کو جمع کرنے کا نام ہے
ایوب خان کے بعد ایک ایسی حکومت آئی جس نے محدود سہی لیکن سماجی تبدیلیاں لانے کی کوشش کی اس نے زمین پوری طرح کسانوں میں تقسیم نہیں کی لیکن زمین کا حق ملکیت اور کم کر دیا تاکہ وڈیروں کی طاقت کم کی جائے اس نے مزدوروں پر گولیاں بھی چلوائیں لیکن مزدور کا معاوضہ بے بڑھا دیا اس نے صنعتوں کو قوم ملکیت تو بنایا لیکن نہ تو واضح پالیسی اختیار کی نہ مزدوروں کو ان صنعتوں کے انتظامی امور میں کوئی حصہ دیا اور نہ اجارہ داری پر مکمل ضرب لگائی اس نے امریکہ کی شدید مخالفت کے باوجود اسٹیل ملز کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا اور ایٹمی پروگرام ترک کرنے سے انکار کر دیا- اس کی پالیسیوں کا رخ عوام کی طرف تھا اور اس کے وزیروں کو عوام سڑکوں پر پکڑ لیتے تھے اور اس حکومت کو عوام سے رجوع کرنا پڑتا تھا اگر وہ حکومت قائم رہتی تو ہم اس سے بہتر حکومت بھی لا سکتے جو عوام کے حقوق اور خوشحالی کے پروگرام کو مکمل کرتی کیونکہ حکومت ووٹ سے بدلتی اور عوام کے اختیار سے بدلتی ہے
ہمارے ملک میں لیکن نہ امریکہ نہ وڈیرہ نہ کارخانے دار نہ ملا اس پر تیار نہیں تھے کہ پالیسیوں کا رخ عوام کی طرف ہو- حکومت پر عوام کا دباؤ ہو اور حکومت بنانے کا اختیار عوام کو ہو- کیونکہ اب تک حکومت سازشوں سے بنتی تھی اور وڈیرہ اور کارخانے دار کے نمائندے اور امریکی قرضوں- امریکی کمپنیوں اور پالیسیوں کے مفادات کی نگرانی کرنے والے حکومت بناتے تھے یہ بات انہیں منظور نہیں تھی کہ حکومت بنانے کا اختیار عوام کو کسانوں اور مزدوروں کو کلرکوں اور دکانداروں کو ڈرائیوروں اور ٹھیلے والوں کو مل جائے
ہمیں اپنے مذہب سے بہت محبت ہے اور اپنےرسول بہت پیارے ہیں اپنی جان سے زیادہ اور اپنے اولاد سے زیادہ- لہذا مخالفت بھٹو کی- نعرہ نظام اسلام اور نظام مصطفی کا اور قیادت مولویوں کی- اسلام کے نام پر دھوکہ کھا کر ہم کتنی دور نکل آئے ہیں اس کا اندازہ ہمیں اب ہوتا ہے
ہمارے ملک میں مارشل لاء نافذ ہے مارشل لاء کے تحت وڈیرہ شاہی کی باقیات- تجارتی سرمایہ دار اور امریکی پالیسیوں کے حق میں اسلام نافذ کیا جا رہا ہے قوم ملکیت کی صنعتیں نفع خوروں کو واپس کی جا رہی ہیں تعلیمی ادارے کاروبار کرنے والوں کو دیے جا رہے ہیں سرمایہ داروں اور امریکی سرمایہ داروں کو کھلی لوٹ کی دعوت دی جا رہی ہے اور عوام جو پاکستان کے خالق ہیں اور جن کے ہاتھ پاکستان کے اصل دولت ہیں اپنے تمام حقوق سے محروم ہیں اور اپنے کسی حق کا مطالبہ کرنے کے حق سے بھی محروم ہیں اور اس لیے کہ مارشل لاء کی اسلامی حکومت ان کے پیٹھ پر کوڑے برساتی ہے اور جیلیں بھر دیتی ہے مہنگائی- بے روزگاری- افراط زر- تعلیمی اور طبی سہولتوں کا فقدان- جان مال عزت کی بربادی- مجرموں کے روز افزوں دیدہ دلیرانہ وارداتیں- یہ عوام کا حصہ ہیں جو انہیں اسی اسلامی نظام سے مل رہا ہے
مارشل لاء کا بنیاد مقصد عوام کو ووٹ کے حق سے جتنے طویل عرصے تک ممکن ہو محروم رکھنا ہے اور اگر ووٹ کا حق دینا بھی پڑے تو اسے اس وقت دیا جائے جب ملک تباہی کے کنارے پر پہنچ جائیں تاکہ دوبارہ مارشل لاء لگانے میں آسانی ہو مارشل لاء حکومت انتخاب کے بارے میں جھوٹ بولنے سے شروع ہوئی تھی اور اسے ختم کرنے اور عوام کے حقوق بحال کرنے کے لیے- انتخابات کے حق میں عوام کی تحریک بنیادی ضرورت ہے یہ تحریک ایم آر ڈی کی تحت بہت سست رفتاری سے ہی صحیح آگے بڑھ رہی ہے
مارشل لاء اسلام کے نام پر عوام کو دھوکہ دے کر اپنے اقتدار کو طویل کر رہا ہے اور اپنی اس مہم میں سب سے زیادہ مذہبی جماعتوں پر بھروسہ کرتا ہے مارشل لاء کی ہمیشہ اگے بڑھ کر حمایت کرنے والی جماعت، جماعت اسلامی اور اس کے کارکن ہیں مارشل لاء اس حمایت کا صلہ یوں ادا کرتی ہے کہ جماعت کا کوئی رکن قاتل ہو تو اسے بھی رہا کر دیتی ہے خواہ اسے موت کی سزا ہی کیوں نہ ہو چکی ہو
اب آئیے اس بات کی طرف کہ شیعہ سنی فسادات کی نوعیت مذہبی نہیں سیاسی ہے ایک طرف کروڑوں محنت کش ہاتھ ہیں اور دوسری طرف گنتی کے چند ہزار وڈیرہ- کارخانے دار- سرمایہ دار اور بڑے تاجر ہیں جن کے پشت پر حکومت ہے فوج ہے پولیس ہے کروڑوں محنت کش ہاتھ جس وقت اپنا حق چھیننے کے لیے بڑھتے ہیں تو پولیس فوج جیلیں ظلم تشدد سب ان کے آگے بے بس ہو جاتے ہیں اسی لیے استحصالی طبقہ لوٹنے والوں کا گروہ مولوی کی حمایت پر سب سے زیادہ بھروسہ کرتا ہے- کیونکہ مولوی عوام کے ذہن سے مذہب کے نام پر استحصالی طبقے کی مخالفت کو کم کر دیتا ہے اور مولوی کا رابطہ عوام سے براہ راست ہوتا ہے اس لیے اس کی بات کا اثر ہوتا ہے لیکن اتنا ہی نہیں ہے اگر مولوی عوام کے سامنے بند باندھنے میں ناکام ہو رہا ہو تو پھر مذہب ہی کے نام پر عوام میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی آگ پھیلاتا ہے کبھی کبھی اپنا بازار چمکانے کے لیے بھی اشتعال انگیزی کرتا ہے لیکن ہر صورت میں عوام کو تقسیم کر کے استحصالی طبقوں کے مفادات پورے کرتا ہے پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کی پوری تاریخ دیکھ جائیے ہر بڑے فساد کے پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی مقصد نظر آئے گا خواہ عوام کی توجہ کسی فوری مسئلہ سے ہٹانے کے لیے ہو یا استحصالی طبقہ کے کسی گروہ کی بالادستی قائم کرنے کے لیے ہو- فرقہ وارانہ فسادات کئی طرح سے استحصالی طبقے کے مفاد کو پورا کرتا ہے عوام کے توجہ سیاسی مسائل سے ہٹاتا ہے عوام کو تقسیم کرتا ہے متحد ہونے میں رکاوٹیں ڈالتا ہے اور انہیں کمزور کرتا ہے ایک طویل عرصہ کے لیے فضا کو کشیدہ اور ذرا سے چنگاری سے بھڑک اٹھنے والی بنا دیتا ہے اشتعال انگیزی کرنے والے مولویوں کا اثر بڑھاتا ہے اور استحصالی طبقوں کو مہلت فراہم کرتا ہے اور پولیس اور امن عامہء کے نام پر تشدد کرنے والے اداروں کو مضبوط کرتا ہے
فرقہ ورانہ فسادات استحصالی طبقوں کے اسلحہ خانے کا صرف ایک ہتھیار ہے قومی منافرت اور تشدد جس نے بنگال کو علیحدہ ہونے پر مجبور کر دیا اور چھوٹے قومیتیوں میں شدید بے چینی پیدا کر دی- سرحد پر فوجوں کا موقع بے موقع اجتماع- پڑوسی ملکوں سے جنگیں- عوام پر براہ راست تشدد- جس کے مثالوں سے پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے اس اسلحہ خانے کے چند ہتھیار ہیں جو عوام کو کچلنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں
فرقہ وارانہ فسادات کی بنیاد مذہبی نہیں اور نہ ہی فرقہ وارانہ تشدد اس کا حل ہے اس مسئلے کی سیاسی نوعیت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ عوام میں مارشل لاء کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے اور ملک کے تمام طبقے انتخابات کے مسئلے پر متفق ہو گئے ہیں مسائل لاوے کی شکل میں جمع ہو رہے ہیں اور کسی وقت بھی یہ لاوہ پھٹ سکتا ہے اور حکومت روز بروز زیادہ سے زیادہ عوام دشمن ہوتی جا رہی ہے ان حالات میں فرقہ وارانہ فسادات صرف مارشل لاء کے مفاد کو پورا کر رہا ہے
اس بارے میں مارشل لاء حکومت کا رویہ تصدیقی شہادت ہے کئی مہینے سے یہ بات واضح ہو رہی تھی کہ فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھ رہی ہے لیکن حکومت نے اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور ہر مرتبہ پولیس فورس متعین کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا اور پولیس نے ہر جگہ تھوڑی بہت مارپیٹ کر کے لوگوں کو اشتعال دلایا جا ہنگام جب ہنگامے شروع ہو گئے تو ان کی روک تھام میں اس وقت تک دیر کی گئی جب تک کہ اچھی طرح سے جانی و مال نقصان نہیں ہو گیا پھر روک تھام کے طاقت موثر رکھنے کے بجائے اسے ختم کر دیا گیا تاکہ فسادات نئے سرے سے پھوٹ پڑیں یہی ہوا مرکزی امام بارگاہ پر تین مرتبہ فسادیوں نے حملہ کیا- گھر اور مسجدیں اور امام باڑے اور ان کے اندر رکھی ہوئی مذہبی کتابیں اور قران سب جلا دیے گئے اور پولیس کے چند آدمیوں کی نفری جگہ جگہ تماشہ دیکھتی رہی پورا لیاقت آباد اس فساد کے لپیٹ میں آگیا اور مارشل لاء حکومت خاموشی سے دیکھتی رہی پھر پولیس نے ہر جگہ سے اقلیتی فرقہ کے لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا جنہیں فوری طور پر فوجی عدالتوں نے ایک سال قید اور پندرہ کوڑوں کی سزائیں سنادیں فسادات کا یہ سلسلہ تا حال جاری ہے اور صدر صاحب فرماتے ہیں کہ یہ معمولی بات ہے اور ایسے فسادات ہر ملک میں ہوتے ہیں صدر صاحب کا رویہ اس بات کا اظہار ہے کہ وہ ابھی ان فسادات سے مطمئن نہیں ہیں اور یہ کہ انہیں اور بڑھنا چاہیے فوج اور پولیس نے بھی اپنے رویہ سے ان ہدایتوں پر عمل کیا ہے اور فسادیوں کے راستے میں رکاوٹ بننے کے بجائے ان سے تعاون کرتے رہے ہیں
فسادیوں کے بارے میں لیاقت آباد والوں کا کہنا ہے اور ان کے بیانات بھی اخباروں میں موجود ہیں کہ فسادیوں کے گروہوں کا تعلق لیاقت آباد سے نہیں ہے اور لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلح غنڈوں کے دستے باہر سے آکر یہاں فساد پھیلاتے تھے جو منظم طریقے پہ اسلحہ اور پیٹرول سے لیس ہو کر آتے تھے
اس کہ اس فساد کی نام نہاد مذہبی بنیاد یہ تھی کہ وہابی فرقہ کے لوگ جو مسلمانوں کے دوسرے تمام فرقوں سے شدید اختلاف رکھتے ہیں اور جماعت اسلامی (جس کا عقیدہ بھی وہابیت ہے) ہر دوسرے فرقے کے خلاف صف آرا رہتے ہیں وہابیت- سعودی عرب کا سرکاری مذہب ہے اور کہا جاتا ہے کہ صدر ضیاء کا عقیدہ بھی وہابیت ہے وہابی اپنے عقیدے میں انتہا پسند ہوتے ہیں ان کا عقیدہ عام مسلمانوں سے کس قدر مختلف ہیں یہ ہمارے موضوع سے غیر متعلق ہے لیکن وہابیت کا عالمی کردار- عوام دشمنی- ٹھیٹ رجعت پسندی- استحصالی طبقوں کا آلہء کار ہونا اور سامراج دوستی کا رہا ہے پاکستان کی جماعت اسلامی- انڈونیشیا کی مسجومی پارٹی اور مصر کی اخوان المسلمین اس کی نمائندہ مثالیں ہیں انفس اس فساد میں جو مذہبی لیڈر سامنے آئے ہیں انہوں نے اپنے وہابی عقیدے کا ہمیشہ اظہار کیا ہے
شیعہ مولویوں کا کردار اس دوران حکومت کی کھلی ہمنوائی کا رہا ہے اور انہوں نے کہیں بھی ان فسادات کو رکوانے کے لیے کوئی کوشیش نہیں کی نہ صرف یہ کہ بیشتر شیعہ مولویوں نے اشتعال پھیلانے والے ایجنٹ کا کردار ادا کیا ہے اور فسادات کو ہوا دی ہے بیشتر شیعہ مولوی حکومت سے تنخواہیں مراعات وصول کرتے ہیں اور اپنے ہی فرقے کو حکومت کی خوشامد میں شر پسند قرار دیتے ہیں
جو کچھ ہوا اور جس طرح ہوا ہے اس کے پیش نظر عوام حق بجانب ہیں کہ حکومت سے اس کی نیت اور کردار کے بارے میں سوال کریں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت وضاحت کرے:
جب کشیدگی پھیلنا شروع ہوئی تھی تو حکومت نے اس مسئلہ کا سنجیدگی سے نوٹس کیوں نہیں لیا؟
حکومت نے کشیدگی کم کرنے اور پرامن فضا پیدا کرنے کے لیے ایسے اقدامات کیوں نہیں کیے جس میں دونوں فرقوں کے رہنماؤں کو بات چیت کے ذریعے مصالحت پر راضی کیا جاتا اور امن برقرار رکھنے کا پابند کیا جاتا؟
حکومت نے ان شرانگیز بیانات- تقریروں اور پوسٹر اور اشتہارات کا نوٹس کیوں نہیں لیا جو اقلیتی فرقے کے خلاف انتہائی اشتعال انگیزی پر مبنی تھے اور ان لوگوں کے خلاف اقدامات کیوں نہیں کیے؟
جب حکومت ایک معمولی سے سیاسی پمفلٹ پر دو دو سو آدمیوں کو گرفتار کر لیتی ہے
حکومت نے انتظامی کاروائیوں میں دیر کر کے ہر مرتبہ فسادیوں کو اپنے مقاصد پورے کرنے کا موقع فراہم کیے کیا یہ کسی سازش کے تحت تھا؟
پولیس کے نہ اہلی- فوج کا اپنے دائرہ کار کو محدود کرنا- گلیوں میں جانے سے انکار کرنا اور متاثرہ افراد کے انخلا میں مدد کرنے سے انکار کرنا- کیا یہ سب حکومت کے ایماء کے بغیر ممکن تھا؟
کیا حکومت پر اقلیتی فرقوں کی جان مال کی حفاظت فرض نہیں ہے
کیا حکومت نے کوئی ایسی کاروائی کی جس سے مجرموں کے نشاندہی ہوتی ہے
کیا حکومت کا صرف اقلیتی فرقے کے لوگوں کو دھڑا دھڑ گرفتار کرنا اور فوری سزائیں سنا دینے کا اقدام ظالمانہ اور جابرانہ نہیں ہے
کیا حکومت نے مستقل بنیاد پر فرقہ وارانہ امن برقرار رکھنے کے لیے کسی تجویز پر غور کیا ہے
صدر ضیاء کے ریمارکس کا کیا مطلب ہے اور کیا مضمرات ہیں؟ کیا حکومت شیعہ سنی فساد کو پورے ملک میں پھیلا ہوا دیکھنا چاہتی ہے ان ریمارکس میں عوام کے جان و مال کے زیاں پر افسوس کا شائبہ تک نہیں ہے
ہم حکومت کی کارکردگی سے یہ سمجھنے پہ مجبور ہیں کہ ان فسادات کی سازش حکومت نے تیار کی تھی اور اسے جماعت اسلامی اور وہابی عقیدہ کے رہنماؤں نے اپنے غنڈوں کے ذریعے عملی جامہ پہنایا اور زبردستی اور اشتعال انگیزی کے ذریعے اہل سنت کو اس میں گھسیٹنے کی کوشش کی گئی
ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت اور اس کے حواریوں کی یہ سازش ناکام ہوتی جا رہی ہے پہلی مرتبہ فسادات کا دائرہ نئی کراچی- سہراب کوٹ سے تین ہٹی تک تھا لیکن عوام کے عدم تعاون اور فسادات میں حصہ لینے سے نئی انکار کی بنا پر(نئی کراچی میں نوجوان تحریک کی مہم اور سوراب گوٹ میں نوجوانوں کی کوشش سے فسادات روک دیے گئے) اب یہ فسادات سمٹ کر صرف لیاقت آباد کے حلقے میں محدود ہو گئے ہیں جہاں جماعت اسلامی کے اراکین کی اکثریت رہتی ہے یہ بات تو طے ہے کہ ایسے فسادات صرف اس صورت میں کامیاب ہوتے ہیں جبکہ یا تو علاقہ فسادیوں سے چاروں طرف سے گھر جائے اور اگر علاقہ گھر نہیں سکتا تو اسے علاقے کے اندر سے حمایت حاصل ہو جماعت اسلامی کے کارکنوں نے فسادیوں کو شیعہ گھروں کے نشاندہی کی
ہم اپنے سیاسی رہنماؤں کے عمل کو بھی افسوسناک قرار دیتے ہیں جو ان فسادات کو بڑھنے سے روکنے کی کوشش کرنے میں ناکام رہے ہمارے سیاسی رہنماؤں کا قد کاٹھ ان نام نہاد مذہب رہنماؤں سے کہیں اونچا ہے اور اگر یہ رہنما متاثرہ علاقوں کے دورے شروع کر دیتے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے جلوس نکالتے یا اور تجویزوں پہ عمل کرتے تو یقینا” عوام کو تقسیم کرنے کی سازش شروع میں ہی اپنی موت آپ مر جاتی اور یہ افسوسناک صورتحال پیدا نہ ہوتی
ہم ان تمام لوگوں کے لیے سوگوار ہیں جو شیعہ بھی تھے اور سنی بھی اور اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں مارے گئے
آخر میں ہم تمام شیعہ و سنی عوام سے عموما” اور شیعہ اور سنی نوجوانوں سے اور ان کی انجمنوں سے خصوصا” چند باتیں عرض کریں گے
پہلی بات یہ کہ نوجوان نسل یقینا” اس بات کو پسند نہیں کرتی کہ آپس میں نفرت کی آگ پھیلے- خون خرابہ ہو – غارت گری ہو اور فسادات ہوں جو زندگی کو عذاب بنا دیں نوجوان نسل جو زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے متلاشی ہوتی ہے ان رکاوٹوں درحقیقت سازشوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے
دوسری بات یہ کہ صرف نفرت کی نگاہ سے دیکھنا کافی نہیں بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات کرنا- سازشوں کو بے نقاب کرنا اور ناکام بنانا اور ان سازشوں کے خلاف آپس کے اتحاد کو مضبوط بنانا بھی ضروری ہے
تیسری بات یہ کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے مستقل بنیادیں تلاش کرنا نوجوانوں کا فریضہ ہے تاکہ ملک اس لعنت سے پاک ہو سکے اور عوام کے خلاف کوئی سازش عمل میں نہ آسکے
چوتھی بات یہ ہے کہ نوجوانوں کا یہ بھی فریضہ ہے کہ اس اتحاد کی بنیادوں کو گلی محلہ اور علاقوں تک ہی مضبوط ہونا چاہیے
پانچویں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام کے سیاسی شعور کو بلند کرنے کی جدوجہد کر کے ہی اس اتحاد کو پائیدار بنایا جا سکتا ہے
ہم ذیل میں کچھ ایسی تجویزیں پیش کر رہے ہیں جن پہ غور کر کے شیعہ اور سنی نوجوان اور ان کی انجمنیں ایسی بنیادیں تلاش کر سکتے ہیں جن سے فرقہ وارانہ اتحاد کی پائیدار شکلیں ظہور میں لائی جا سکتی ہیں
دونوں فرقوں کے نوجوان یہ طے کر لیں کہ مذہبی فرائض کی ادائیگی میں کوئی فرقہ دوسرے کی دل آزاری ہرگز نہیں کرے گا اور علماء کو ایسی حرکات سے سختی سے باز رکھے گا
ہر فرقہ اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی چار دیواری کے اندر کرے گا اور پبلک مقامات پر نہیں کرے گا
لاؤڈر سپیکر کا استعمال انتہائی ضرورت پر کیا جائے گا اور اس میں یہ پابندی رکھی جائے گی کہ علاقے کے لوگوں کو تکلیف اور پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اس کی آواز کو سامعین تک محدود رکھنے کی کوشش کی جائے گی
جلوسوں کی تعداد اور اختیاری طور پر اپنی مرضی سے کم سے کم رکھی جاۓ
ایسی عام مذہبی کتب کے جن میں کسی فرقہ کی دل آزاری کرنے والا مواد موجود ہو پبلک مقامات پہ فروخت قطعی بن کر دی جاۓ
کوشش کی جائے کہ ہر فرقے کی مذہبی محفلوں میں دونوں فرقوں کے لوگ شریک ہوں
کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ شادیاں دونوں فرقوں کے مابین ہوں
ہماری مندرجہ بالا تجاویز اور ایسی ہی دوسری تجاویز دونوں فرقوں کے درمیان ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنے کے مقصد سے ہیں اور یہ ذہنی ہم اہنگی عوام میں سیاسی شعور کو مضبوط بنانے کے لیے ہے کیونکہ اس مسئلے کی نوعیت سیاسی ہے
سیاست نام ہے حکومت امور حکومت میں حصہ لینے کا اور یہ عوام کا بنیادی حق ہے جس پر عوام کے تمام حقوق کا دارومدار ہے اور آخری تجزیہ میں مذہبی حقوق بھی سیاسی حقوق کے تابع ہیں اور سیاسی حقوق کی جدوجہد کے لیے عوام میں سیاسی شعور ذہنی ہم آہنگی اور اتحاد بنیادی شے ہیں
ہم نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ آگے بڑھیں اور اس فریضہ کو اپنے ہاتھ میں لے لیں کیونکہ صرف وہی اسے پورا کر سکتے ہیں
عوام کا اتحاد زندہ باد – عوام کے خلاف سازشیں مردہ باد