سندھ کا اتحاد' مضمرات اور حکمت عملی

تحریر – شاہد رضوی

عوام کے وسیع تر اتحاد کے لیے سن میں 20 مئی کو ایک اجلاس ہو رہا ہے جس میں ڈان کی 30 مارچ کی ایک خبر کے مطابق ان سیاسی پارٹیوں کو بھی مدعو کیا جائے گا جو اس سے پہلے بھی ایسے اتحاد میں شریک نہیں تھیں ان میں قومی محاز آزادی۔ مہاجر قوم موومنٹ۔ اے این پی سامراج دشمن ونگ کے نام بھی لیے جا رہے ہیں مدعوین کے فہرست میں کمیونسٹ پارٹی بھی ہے اور وطن دوست انقلابی پارٹی بھی- سندھ کے بیشتر مکاتب فکر موجود ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ میں اس حقیقی صورتحال کا احساس بڑھ رہا ہے کہ جب تک اتحاد کی بنیادیں وسیع نہیں کی جائیں گی اور ان تمام لوگوں کو شامل نہیں کیا جائے گا جن کا مرنا جینا سندھ کی مٹی سے وابستہ ہے سندھ کے مسائل کا حل ہونا ناممکن ہے

سندھ میں اس سے پہلے بننے والے اتحادوں کے تجربے ہمارے سامنے ہیں جن کی ناکامی کی وجہ ان کی تنگ نظری قوم پرستی سندھ کے حقوق کی جدجہد میں عوام کے تمام پرتوں کو نہ جوڑنا، قومی جمہوری انقلاب کی جدوجہد سے نہ جڑے دینا وغیرہ ہیں یہ سوچ کر عوام کے تمام حصوں کو سندھ کے حقوق جدوجہد میں شامل کیا جائے ایک خوش آئند اور صحیح قدم ہیں عوام پر ظلم و استحصال کے خلاف لڑنے والوں کی- سب کی خواہش یہی ہے کہ سندھ کے عوام کے مسائل حل کرنے میں یہی اتحاد زیادہ پائدار اور موثر ہے اسی خواہش کے زیر اثر یہ چند معروضات سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے لیے توجہ کی توجہ کے لیے پیش خدمت ہیں

سن کانفرنس ایک ایسا اتحاد تشکیل دینا چاہتی ہے جو سندھ کے قوم مسائل کو حل سکے جن مسائل کو اس ایجنڈا کی بنیاد بنایا جا رہا ہے وہ چاہ رہے ہیں کالا باغ ڈیم نامنظور- چھاؤنی نامنظور- سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے- سندھ میں باہر سے آنے والوں پر پابندی لگائی جاۓ- یہی وہ نکات ہیں جو اس سے پہلے کے اتحاد ایس پی این اے کی بنیاد ہیں انہی نکات پہ وسیع اتحاد بنانے کی وجہ یہ احساس ہے کہ نکات کے پیچھے جو طاقت ہے کم ہے اور عوام کے وسیع حلقوں کو اسی سے جڑنا چاہیے ظاہر ہے کہ یہ چار نکات بہت اہم ہیں لیکن یہ سوچ غلط ہے کہ یہ چار نکات ہی اہم ہیں اور انہیں پر ہی وسیع تر اتحاد بنانا طاقت کو موثر بنا دے گا اتحاد کی طاقت کو مضبوط ہونے کے لیے نہ صرف اس کی شریک پارٹیاں بلکہ اس کا پروگرام بھی مضبوط ہونا چاہیے ایسا پروگرام جو نہ صرف سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کو بلکہ ان کے پیچھے جو عوام کی طاقت ہے اسے بھی متحرک کر دے

میں اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ان چاروں نکات کی اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ بنیادی نکات نہیں ہے یہ ایسے نکات نہیں ہیں جن سے وہ اختیارات حاصل ہوں جن کے ذریعے عوام اپنے نمائندوں کے ذریعے اپنی طاقت کا اظہار کرتے ہوں ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اجتجاجی جلسوں اور جلوسوں کے ذریعے زبردست مظاہروں کے ذریعے ہم پنو عاقل چھاونی کو ختم کیے جانے پہ مجبور کر دیتے ہیں لیکن اس کی ابتدا کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہمارے پاس نہیں ہے اگر مرکزی حکومت کسی اور مقام پہ دوسری چھاونی بنانا چاہے تو پھر ہمیں اس مسئلے پر اتحاد بنانے کی نئے سرے سے کوشیش کرنی پڑے گی ان نکات پر جدوجہد ہمیں اس جگہ سے جا کے کھڑا نہیں کرتیں جہاں انہی یا ان جیسے مسائل پہ دوبارہ تحریک چلانے کی ضرورت نہ پیش آۓ اور ہم اپنے اختیارات استعمال کر کے اپنے سے متعلق مسائل کا فیصلہ کر سکیں

اس پوری مہم کا بنیادی نکتہ جو ان چاروں مطالبات کو اپنے اندر ضم کر لیتا ہے اور ان نکات کو بروئے کار لانے کے لیے زیادہ وسیع میدان فراہم کرتا ہے قومی خود اختیاری کا نکتہ ہے قوم حق خود اختیاری ایک مطالبہ نہیں بلکہ مطالبات کا ایک سیٹ ہے جو ایک دوسرے میں پیوست ہے اور ایک دوسرے پہ منحصر ہیں اور جنہیں علیحدہ نہیں کیا جا سکتا اور ان کی یہی واضح فطرت ان کی جدوجہد کے لیے مضبوط ترین اتحاد پیدا کرتی ہے اس مطالبے کی عمومی شکل کسی قوم کے مطالبات کے کل مطالب کو ظاہر کرتی ہے

بعض حضرات کے رائے میں سندھ کا استحصال سے نجات کا راستہ سندھو دیش ہے لیکن اس کی سچائی کی تصدیق اس نئے اتحاد سے کہیں زیادہ وسیع ترین عوامی رضامندی ہی ہو سکتی ہے جو آزادانہ اظہار رائے یا قومی حق خود اختیاری کی صورت میں ہی حاصل ہو سکتی ہے تبھی یہ ممکن ہے کہ سندھو دیش بننے یا نہ بننے آزاد ہونے وفاق کا پابند ہونے پرانا آئین چلانے یا نیا آئین بنانے وغیرہ جیسے مسائل کا فیصلہ ہو سکتا ہے

ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر بن کی جائے یہ مطالبہ ہم مرکزی حکومت سے کر رہے ہیں اور بیوروکریسی ہمارے مطالبے کے جواب میں کبھی سندھی مہاجر اور کبھی مہاجر پنجابی پٹھان فساد کرا دیتی ہے کبھی وزیروں کو تبدیل کر تی ہے یہ تاثر دیتی ہے کہ کالا باغ ڈیم تو لازما” بنے گا ہم برابری کی بنیاد پہ منتخب ہونے والی ہاؤس اف نیشنز میں بیٹھ کے اسے مسترد نہیں کررہے بلکہ صرف مسترد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں

ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ سندھ میں دوسرے صوبوں سے لوگوں کی آمد بن کی جائے اور سندھی قوم کو اقلیت بنانے سے بچایا جائے ہم یہ صحیح مطالبہ کر رہے ہیں لیکن پہلے بات تو یہ ہے کہ کیا مرکزی حکومت جس سے ہم مطالبہ کر رہے ہیں پنجابی بیوروکریسی کے دباؤ کے باوجود اسے تسلیم کرلے گی اور اگر تسلیم کر بھی لیا تو عمل کرے گی پھر یہ کہ کیا سندھ کی حکومت اتنی با اختیار ہے کہ باہر سے آنے والوں کو روک سکے دوسری بات یہ کہ سندھی اور غیر سندھی کے تفریق کیے بغیر سندھ کی آبادی میں جو مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اسے کیسے روکا جائے

پھر سندھی قوم کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے کیسے بچایا جائے؟ کیا اقلیت بننے سے بچنے کے لیے تاریخ کے پہیے کو پیچھے گھمانے کی کوشش کی جائے یا پرانے سندھیوں کو بیچ میں محفوظ کر کے چاروں طرف اقلیتوں کی دیواریں کھڑی کی جائیں اور سندھیوں کو بے یار مددگار کر دینے کی طرف دھکیلا جائے جیسا کہ تنگ نظر قوم پرست چاہتے ہیں کہ تمام اقلیتوں کو آپس میں لڑایا جائے

تاریخ ہمیں صرف ایک راستہ بتاتی ہے وہ یہ کہ سندھی قوم میں اقلیتوں کے ضم ہونے کے عمل کو تیز کیا جائے سندھی قوم کو وسیع ہونے دیا جائے- پھیلنے دیا جائے قوم کی تعریف کو سختی کے ساتھ نسطبق کرنے کے بجائے موجودہ صورتحال کے مطابق اس کا اطلاق کیا جائے سندھ کی مہاجر اقلیتوں کو جن کے مفادات سندھ کی سرزمین کا جز ہیں، سندھ قرار دیا جائے اور اسے تسلیم کیا جائے کہ مہاجر اقلیتوں کی زبان و معاشرت کو سندھ کی مٹی سے ہم آہنگ ہونے میں بھرپور مدد دینی چاہیے تاکہ جلد از جلد یہ فرق ختم ہو سکے

سندھی قوم اور اس لحاظ سے دنیا کی ہر قوم لسانی و تہذیبی اقلیتوں کے ملنے سے ہی قوم بنتی ہے جو مختلف ادوار میں آتے رہیں اور ضم ہوتے رہیں سندھی قوم کو اقلیت بننے سے بچانے کے لیے ان اجزاء کو جو اس سے جڑنے کو تیار ہیں جوڑنا انتہائی ضروری ہے صرف ایسے لوگ ہیں جونسلی برتری کے فاخرانہ بلکہ لیکن فرسودہ اور گھٹیا تصورات رکھتے ہوں، قوم کو پھیلنے سے روکتے اور ریڈ انڈین بنانے کی کوشش کرتے ہیں سن کانفرنس سندھی قوم کے پھیلنے کے عمل کو اپنی پالیسی بنا سکتی ہے لیکن پھر بھی یہ مسئلہ رہ جاتا ہے کہ اسے عملی شکل دینے کا اختیار سندھ کی قومی حکومت کو ہونا چاہیے جو فی الوقت نہیں ہے

جب ہم قوم خود مختاری کی بات کرتے ہیں تو ہم ایک طرف تو آئینی ضمانتوں کی بات کرتے ہیں جو اپنے حقوق کے سلسلہ میں ہمیں حاصل ہونے چائیں یعنی ہم مرکزی اور صوبائی ڈھانچے دونوں میں تبدیلی چاہتے ہیں مرکز کو ہم قوموں کے رضاکارانہ اتحاد کا مرکز چاہتے ہیں جبکہ صوبے کی حکومت کو مکمل خود مختاری حاصل ہو اور دوسری بات یہ ہے کہ ہم مرکز سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سامراجی ممالک کے حاشیہ برداری ختم کی جائے ملک میں مکمل جمہوریت بحال کی جائے اور آزادانہ انتخابات کرائے جائیں تمام ظالمانہ اور استحصالی قوانین منسوخ کیے جائیں- یعنی ایسے مطالبات جو دفاع، امور خارجہ، کرنسی، رسل و رسائل اور مرکزی پلاننگ سے تعلق رکھتے ہوں اور تیسری بات یہ ہے کہ ہم صوبائی حکومت سے وہ تمام مطالبے کرتے ہیں جن پہ صوبائی حکومت کو جو حقیقیتا” ایک قوم کی نمائندہ حکومت ہو اختیار حاصل ہونا چاہیے ان میں زرعی اصلاحات صنعتوں کی ترقی محنت کشوں کا غیر مشروط حق ہڑتال اور ان پر سے استحصال کا بوجھ کم کرنے والے قوانین، مزدوروں کی یونین بنانے کا حق، خواتین و طلبہ وغیرہ کے لیے خصوصی قوانین اور سندھی زبان کی لازمی تعلیم کے بہت اہم مطالبے شامل ہیں

اگر ہم ان چار مطالبات کو قومی حق خود اختیاری سے جوڑے بغیر بات کرتے ہیں تو ہم درحقیقت ان چار مطالبات کو بے روح کر دیتے ہیں جو اتحاد ان کی بنیاد پر بنے گا اس کی عملی طاقت ایس پی این اے سے زیادہ نہیں ہوگی
سندھ کے قومی حقوق و مطالبات کے شک جو شکل ابھر رہی ہے اس میں ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ متعدد بنیادی حرکات صرف صوبوں کے حقوق اور مرکز کے اختیارات کی آئینی ضمانت، فوج کا کردار، مرکزی اور صوبائی معاشی پلاننگ یا ملک سے سامراجی اڈے ختم کرنے کا مطالبہ، کالا باغ ڈیم کی تنسیخ جس ک پشت پناہی سامراجی سرمایہ کررہا ہے وغیرہ ایسے ہیں کہ جن کے راستے کی سب سے بڑے رکاوٹ امریکی سامراج ہے اپنے آخری تجزیہ میں ملک کی معاشی آزادی اور سیاست میں مثبت غیر جانبداری کا راستہ لازمی طور پر سامراج مخالف ہے اگر کوئی قوم یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنے قومی مطالبات کی تکمیل سامراجی آشیرباد سے حاصل کر سکتی ہیں حالانکہ کچھ لوگ کبھی کچھ سوچتے ہیں کہ وہ نہ صرف شدید غلط فہمی کا شکار ہیں بلکہ سامراج کے جال کو اپنے گرد زیادہ مضبوط ہونے کا موقع بھی دینا ہے سندھ کے عوام کے وسیع ترین موثر، متحرک اتحاد کے لیے ضروری ہے کہ سندھ کے قومی مطالبات کی جدوجہد کا جامع پروگرام ہو اور تمام سندھیوں کو ان تمام لوگوں کو جن کا مرنا جینا سندھ کی دھرتی سے وابستہ ہے اس اتحاد میں شریک کیا جائے اگر ہمارے سیاسی رہنما ایک ایسی حکمت عملی بنا لیں تو سن کانفرنس نتائج کے لحاظ سے بھی ایک بڑا کارنامہ ہوگی

Scroll to Top