دہشت گردی


تحریر- شاہد رضوی
دہشت گردی کی نہ تو کھلے عام اجازت ہے نہ ہی اس کا کوئی لائسنس ملتا ہے پھر بھی ہم یہاں اس بات پر بحث کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں کہ دہشت گردی کو کیسے روکا جائے یعنی ایک غیر قانونی حرکت کو روکنے کے لیے کیا قانونی ماوراء قانونی ذرائع اختیار کیے جائیں مشکل یہ ہے کہ جو دہشت گرد ہیں وہ سامنے نہیں آتے اور آتے ہیں تو ایسے کہ پہچانے نہیں جاتے
دہشت گردی کے نتائج البتہ سامنے آتے ہیں اور تب ہمارے پاس کچھ کہنے کو نہیں رہتا- دہشت گردی ایک ظالمانہ فعل ہے اس کے ایک برائی تو یہ ہے کہ یہ مسائل حل نہیں کرتی مسائل پیدا کرتی ہے دوسری برائی یہ ہے کہ اس کا رشتہ کسی پارسا اور اشرافیہ تحریک سے نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی دہشت گردی سے ہے امریکہ اسلحہ افغان بھگوڑوں کو دیتا ہے وہ یہی اسلحہ ہمارے بندوں کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں مزید اسلحہ خریدنے کے لیے جو پیسہ چاہیے وہ اسی اسلحہ کے ذریعے بینک لوٹ کر حاصل کیا جا سکتا ہے ورنہ پھر منشیات بھی ہے اور سرکاری امداد بھی- جو لوگ اسلحہ دیتے ہیں وہ اپنی درندگی بھی دیتے ہیں اور یہ ہدایت بھی کہ صبح ناشتہ میں کس پڑوسی کو شکار کرنا ہے اور رات بھر کس رخ پر فائرنگ کرنا ہے لاشیں تو پھر لاشیں ہیں خاص سڑک پر خواہ سڑک پر خون میں لتھڑی ہوں یا کسی وین میں جلی ہوئی یہ تو کسی مسئلہ کا حل نہیں صرف درندگی کا اظہار ہے یہ میں نہیں جانتا کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اسلحہ ہوتا ہے وہ موت کے بارے میں کیوں سوچتے ہیں زندگی کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے حالانکہ فائر کرتے وقت خود سانس لیتے ہوتے ہیں زندہ ہوتے ہیں
دہشت گردی خود کسی مسئلے کا حل نہیں لیکن اس کے پیچھے کیا مسائل ہیں اگر کوئی شخص اپنے کسی حق کے لیے لڑتا ہے تو اپنی پہچان رکھ کر لڑتا ہے اگر وہ پہچانا نہ جائے تو حق کسے ملے گا ظاہر ہے کہ آدمی بھی ضائع گیا اور حق بھی ضائع گیا کیونکہ جو لڑ رہا ہے اس نے حق نہیں طلب کیا- حق طلب کرنا سیاسی جماعتوں کا کام ہے دہشت گرد کا نہ کوئی حق ہے نہ طلب کر سکتا ہے وہ صرف یہ کر سکتا ہے کہ اپنے ارد گرد لاشیں گرا دے جوانوں، بوڑھوں اور بچوں کو زندگی سے محروم کر دے
بعض لوگوں نے کہا کہ ہمیں روزگار نہیں ملتا- داخلے نہیں ملتے- تجارت میں حصہ نہیں ملتا ہماری سمجھ میں یہ آیا کہ صرف ان دوستوں کو نہیں ملتا باقی سب لوگوں کو یہ سب حق ملتے ہیں تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اور بہت لوگوں کو بھی نہیں ملتے اندرون سندھ جو بستے ہیں انہیں ان سے بھی کم ملتے ہیں ہونا تو یہ چاہیے کہ روزگار بڑھے تاکہ سب کو ملے- کالج یونیورسٹیاں زیادہ ہوں تاکہ سب کو داخلہ ملے- تعلیم کا بجٹ میں حصہ بڑھے- دفاع کا بجٹ کم ہو- امن کے معاہدے زیادہ ہوں تاکہ خوشحالی آئے یہی نہیں کہ یہاں نہیں ملتا- پنجاب میں بھی نہیں ملتا- تو جنہیں وہاں بھی روزگار نہیں ملتا دوستی ان سے ہونا چاہیے- جنہیں یہاں حق نہیں ملتا دوستی ان اندرون سندھ بسنے والوں سے ہونی چاہیے اور دشمنی ان سے جو روزگار چھینتے ہوں جو صنعتیں اجاڑتے ہوں تجارتی منڈی کو ویران کرتے ہوں
دہشت گردی کچھ بناتی نہیں بگاڑتی بہت ہے- دوستوں دشمنوں سب کے حلیے بگاڑتی ہے- امن و سکون بگاڑتی ہے- شہر بگاڑتی ہے- ملک بگاڑتی ہے لہذا دہشت گردی ہمیشہ قابل مذمت ہے
بعض دوستوں کا یہ خیال ہے کہ سندھ کو اردو اسپیکنگ، پنجابی، پٹھان وغیرہ سے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں دہشت زدہ کر دیا جائے ممکن ہے کہ کچھ لوگ دہشت زدہ ہو جائیں لیکن بیشتر کا رجحان حفاظتی دیواریں بلند کرنے کا ہوگا اپنے خول کو مضبوط کرنے کا ہوگا آپ خود ہی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ رحجان کہ کسی ثقافتی یا لسانی اقلیت کو نکالا جائے کس درجہ غلط ہے اور غالبا” ناممکن العمل بھی
اردو بولنے والے بھی ایک مختلف النوع گروپ (ہیٹروجینیس) ہے مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے چھوٹے چھوٹے گروپوں پر مشتمل یہ آبادی دو مشتر قدریں رکھتی ہے ایک روزگار اور دوسرے اردو- ان کی اپنی زبانیں میمنی- گجراتی- کاٹھیواڑی- مدراسی وغیرہ اردو کے نیچے دبی ہوئی ہیں سیاسی طور پر بھی یہ یکساں گروپ نہیں ہے ایک حصہ مولانا نورانی پہ جان چھڑکتا ہے تو دوسرا حصہ جماعت اسلامی کا خیر خواہ ہے کچھ لوگ مسلم لیگ میں ہیں ان سب سے زیادہ پی پی پی میں ہے پھر فتحیاب ہیں معراج محمد خان ہیں جو اپنی ذات میں خود انجمن ہیں ایسے جماعتیں ہیں جن میں بہت سے لوگ ہیں اور ایسے جماعتیں بھی ہیں جن میں باپ بیٹا روح القدس کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے لہذا ضروری ہے کہ سب کو یکساں سلوک سے نوازنے سے احتراز کیا جائے- دوستوں کو تلاش کیا جائے- دشمنوں کو تنہا کیا جائے- یہ ایک صبر آزما سیاسی کھیل ہے
دہشت گردی مجرد کلیہ نہیں ہے ہر شے کی طرح اس کی اپنی تاریخ ہے جہاں یہ پیدا ہوتی ہے وہیں اس کی تاریخ بھی ہوتی ہے کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے کوئی خوف ہوتا ہے نفسیاتی دباؤ ہوتا ہے یہ سیاست دانوں کا کام ہے دوستوں کا کام ہے کہ اس خوف سے نجات دلائی جائے
عوام کے بعض حصوں میں دہشت گردی سے ہمدردی کا ایک جذبہ موجود ہے آج سڑک پہ چلنے والا ہر تیسرا شخص مسلح ہوتا ہے پستول، ریوالور، ماؤزر، ٹی ٹی کچھ نہ کچھ جیب میں ہوتا ہے لیکن گولیاں برسا کر جانے والے کسی بھی دہشت گرد پر عوام کی طرف سے ایک فائر بھی نہیں کیا گیا نشاندہی نہیں کی جاتی یہ صورتحال صحیح نہیں ہے دہشت گردی کو روکنے کے لیے عوام کے مزاحمت ایک لازمی عنصر ہے
تاریخ میں احسانات کا کوئی تصور نہیں ہے تاریخی عمل میں کوئی فریق کسی پر احسان نہیں کرتا انتقال آبادی کو قبول کرنا احسان نہیں اور نہ ہی منتقل شدہ آبادی کا معیشت میں حصہ بٹانا آسان ہے احسان ہے جس نے جو کچھ کیا اسے اس سے بہتر کرنا چاہیے تھا لیکن تاریخی جبر کے تحت کم کیا اور مسخ شدہ شکلوں میں کیا اور اس کی تلافی ان پہ قرض ہے
اسی طرح تاریخ میں نسلی برتری کا بھی کوئی تصور نہیں ہے آخری برتر نسل ہٹلر اور جرمن قوم تھی جس نے دنیا کی ذہین ترین اور اعلی ترین قوم ہونے کا دعوی کیا تھا اور جسے اس دعوۓ کی وجہ سے خودکشی کرنی پڑی نسلی برتری کا دعوی کرنے والے انسانی تاریخ میں ہمیشہ مس فٹ ہوتے ہیں
عوام کا لانعام یعنی سڑکوں پر پیدل پھرنے والا یہ آدمی کیا چاہتا ہے آپ بھی جانتے ہیں میں بھی جانتا ہوں کہ خواہ یہ سندھ کے شمالی حصے میں رہتا ہو یا خواہ جنوبی حصے میں- عزت کی زندگی چاہتا ہے جو اسے نہیں ملتی زمین کا ایک ٹکڑا- گاؤں میں ایک پکا مکان جس میں بجلی گیس صاف پانی کے سہولتیں ہوں۔ پکی سڑک جس پہ وہ اپنی فصل لے جا سکے شہر میں روزگار چاہیے گھر چاہیے شہری سہولتیں چاہیے یہ اسے نہیں ملتا- اور یہ انہیں حاصل بھی نہیں کر سکتا کیونکہ ہم نے اس کے ہاتھ باندھ دیے ہیں نسلی اور لسانی تعصب کی گرہیں ہیں ہمیں اپنے پڑوسی کو غضب آلود نگاہ سے دیکھنے سے ہی فرصت نہیں- بچوں کے ہاتھ میں کلاشنکوف ہے روزگار تجارت صنعت سرمایہ ان کا کیا ہے زندہ رہ گئے تو اللہ اور دے ديگا جاگیرداریاں ابھی تک بڑی زمینداری کی شکل میں باقی ہے زراعت کی اربوں روپے کی آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں گاؤں میں اسکول نہیں دواخانہ نہیں پکی سڑک نہیں اور ہاری کے سر پر پگڑی بھی نہیں- چھوٹی چھوٹی زرعی صنعتیں تک غائب ہیں وڈیرے کی پجیرو سے جو دھول اڑتی ہے ہاری کی جھوپڑی میں کئی کئی دن سانس لینا دشوار کر دیتی ہے
اور ہم کسی اقتصادی پروگرام معاشی تنظیم کے لیے لوگوں کو متحرک نہیں کرتے پرائیویٹ سیکٹر کی لوٹ کسوٹ کم کرانے کے لیے نہیں اٹھتے صنعتوں کو بچانے اور اضافہ کرنے کے لیے مظاہرہ نہیں کرتے بڑے زمینداریاں ختم کرنے اور زمین کی ہاریوں میں تقسیم کے لیے تحریک نہیں چلاتے کسانوں کی طاقت کا تجزیہ نہیں کرتے دیہی صنعتوں کے لیے جہاں کسان کا بیٹا ملازمت حاصل کر سکے ہم کسانوں کے ساتھ مل کر احتجاج نہیں کرتے
ہمارے خیال میں یہ مسائل حنیف رامے اور نواز شریف سے مل کر غلام مصطفی جتوئی حل کریں گے ہم صرف قومی تشخص کا نعرہ لگاتے ہیں سندھ کا قومی تشخص جوپانچ ہزار سال پرانا ہے اور جسے کسی طرف سے بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں جس نے اب تک آنے والوں کو جذب کیا اور آئندہ بھی جذب کرے گا سندھ کے قوم تشخص کو اگر خطرہ ہو تو اس کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے ہم سب جو اس کے اصل وارث ہیں شہروں میں بسنے والے اور دیہاتوں میں پھیلے ہوئے لوگ
ایک مرتبہ ان لوگوں کو منظم کر دیجئے یہ دور عام آدمی کا دور ہے پھر یہ عام آدمی ہی دہشت گردی کو پنپنے نہیں دے گا