خط لکھنا چھوڑ دیا کہ کہیں تھانے میں بند نہ ہو جائیں

چوتھا مارشل لاء نہ آئے سب آمین کہیں سوائے جماعت والوں کے

تحریر – شاہد رضوی

 مبارک ہو مارشل لاء اور امن پر سے سنسر دونوں اٹھ گئے مارشل لاء نے ہمارا اور سنسر نے امن کا یہ حال کیا تھا کہ جیسے کسی بیوہ کا سامان سڑک پر پھینک دیا جائے کہ نہ وہ غریب گھر جا سکتی ہے نہ سڑک پر ہی بیٹھ سکتی ہے امن پر سنسر سے سب سے زیادہ نقصان ہمیں پہنچا کہ ہم جو کبھی کبھی ہاتھ کی کھجلی سے مجبور ہو کر ایک آدھ مضمون لکھ لیتے تھے اور امن والے مروت میں چھاپ دیتے تھے وہ بند ہو گیا جی چاہتا ہے کہ اگر مالی استطاعت ہو تو سنسر کے خلاف دعوی کر دیا جائے کہ ہمارے اتنے نازائیدہ کالموں کے قتل کا معاوضہ دلایا جائے مارشل لا تو اٹھا ہی سنا ہے کہ ایمرجنسی بھی ختم ہو گئی

صدر اور وزیراعظم دونوں نے یہی اعلان کیا ہے یعنی ہنگامی حالت ختم- بنیادی حقوق بحال- مشکل یہ آپڑی ہے کہ اتنے عرصے بعد بنیادی حقوق بحال ہوئے ہیں کہ اب ہم ہر ایک سے پوچھتے پھر رہے ہیں بھئی! ہمارے بنیادی حقوق کیا ہیں؟ اتنے عرصے میں ہمارا حال یہ ہے کہ دوستوں کے محفل میں بھی حکومت کے خلاف تنقید تو کیا تعریف بھی نہیں کرتے کہ خدا جانے کوئی کیا سمجھ لے دروازے کے سامنے سے پولیس کانسٹیبل نکل جائے تو گھر کے اندر سب کو پسینے آجاتے ہیں خط لکھنا ہم نے چھوڑ دیا ہے کہ غلطی سے کچھ اناپ شناپ لکھ گئے اور سنسر ہو گیا تو تھانے میں بند ہوں گے اور اگر اتفاق سے پولیس والے اس وقت آئے جب ہم گھر پر نہ ہوئے تو سارا گھر تھانے میں بند ہوگا اخبار کی خبروں کی سچائی پر ہمارا یقین کلمۂ طیبہ سے کچھ ہی کم ہے ہ

مارے کئی دوست سیاسی نظر بند ہیں لیکن آج تک ہماری سمجھ میں نہ آیا کہ سیاسی نظر بندی سے بنیادی حقوق کیونکر متاثر ہوتے ہیں یعنی ہمیں صدر صاحب اور وزیراعظم جونیجو نے ایسی الجھن میں ڈال دیا ہے کہ جس کا کوئی سرا ہی نہیں ملتا بلکہ ہم کچھ خوفزدہ بھی ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ بنیادی حقوق کی بحالی کا نعرہ لگا کر اپنے معزز شہری ہونے کا دعوی کریں اور پولیس والے ہمارا وہ حشر نشر کر دیں کہ منٹو کے افسانے “نیا قانون میں تانگے والے خوشیا کا ہوا” نیا قانون دور کھڑا دیکھتا رہا اور وہ غریب پٹتا رہا –  نہ بابا

بنیاد حقوق بحال کرنے ہیں تو جلسہ جلوس کی آزادی بحال کرو تاکہ لوگوں کا اقتدار بحال ہو ورنہ یہ میلہ تو ہمیں پٹوانے کو ہے خیر صاحب! کچھ تو تبدیلی آئی مثلا یہی کہ ہم آج پھر امن کے لیے مضمون لکھنے بیٹھ گئے اور یہ امکانات بھی پیدا ہو گئے ہیں کہ یہ چھپ بھی جائے گا یہ بھی ممکن ہے کہ راستہ چلتے کسی موڑ پر ہمیں جونیجو صاحب یا غوث علی شاہ مل جائیں اور ہم ان سے براہ راست دو بدو گفتگو کر سکیں اور یہی کہہ سکے کہ جناب اگلی مرتبہ پھر آپ کو ہم سے ہی ووٹ لینا ہے شاید یہ امکان بھی ہوتا کہ سیاسی نظر بند رہا ہو جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں جمال نقوی بھی چھوٹ جائیں جو ایک تو بیمار ہیں دوسرے گھر میں چوری ہونے سے سخت پریشان ہیں حالانکہ صرف 500 روپے ہی چوری ہوئے ہیں لیکن انہیں ڈر یہ ہے کہ چوروں نے راستہ دیکھ لیا ہے ویسے یہ چور جانے پہچانے ہی تھے کہ صرف کاغذ تلاش کرتے رہے اور جب کاغذ نہ ملے تو 500 روپے ہی لے گئے کہ عام چوری شمار ہو جائے یہ بھی امکان ہے کہ گو کہ بہت دور کا کہ شاید اخباروں- ریڈیو- ٹی وی پہ سچی خبریں آنا شروع ہو جائیں خیر صاحب امکانات تو بہت ہیں ہم کہاں تک تذکرہ کریں لیکن آخری امکان کا ضرور ذکر کریں گے کہ شاید چوتھا مارشل لاء نہ آئے سب آمین کہیں 

Scroll to Top