جیل کے باہر کی سزاؤں کو جیل کے اندر کی سزاؤں سے ضرب ہونے لگی تو کیا ہوگا؟

فرشتے سوئی کی نوک پہ اتر سکتے ہیں یا نہیں اس پر مناظرہ کیسا رہے گا
تحریر – شاہد رضوی
راستہ چلتے ہوئے ایک جگہ دیوار پہ نظر پڑی تو جلی حروف میں لکھا ہوا دیکھا اسلامی نظام کے لیے ضیاء کا ساتھ دو- ضیا تحریک کنوینر محمد یوسف قریشی
پہلے تو ہم یہ سمجھے کہ پینٹر کے پاس رنگ بچ گیا ہوگا اس لیے چلتے چلتے ازراہ مذاق یہ لکھ دیا ہے آگے جب دو تین جگہ اور یہی عبارت دیکھی تو ہم سوچنے پہ مجبور ہو گئے حیران اس لیے نہیں ہوئی کہ ایک تو حیران ہونے میں جو شکل بنتی ہے وہ اچھی نہیں لگتی دوسرے یہ کہ اپنے وطن میں اب کسی چیز پر حیران ہونے کی گنجائش باقی نہیں ہے رہی- حیران اس وقت ہوا جاتا ہے مثلا” کوئی شخص نہایت محبت و شفقت سے سر پہ ہاتھ پھیرتا رہے اور تھوڑی دیر بعد ایکا ایکی زور سے چپت ماردے لیکن اگر سر سہلانے اور چپت مارنے کی عادت مستقل ہو تو پھر حیران ہونے کے عادت ختم ہو جاتی ہے اور سر بچانے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں
لہذا ہم حیران تو نہ ہوۓ البتہ سوچنے پہ مجبور ہو گیا وہ بھی اس لیے کہ یہ اشتہار ہماری سمجھ میں نہیں آیا
نکتہ یہ ہے کہ اگر الف کے مد مقابل ب آجائے اور ب بہت طاقتور ہو تب الف اپیل کرتا ہے کہ بھائیو میری مدد کرو میرا ساتھ دو اگر الف کے مد مقابل کوئی نہیں ہے تو پھر الف بھی خاموش رہے گا لیکن اگر اپیل کرے گا تو الف کرے گا یہ کنوینر محمد یوسف قریشی کون ہے جو اپیل کر رہے ہیں ہمیں یاد ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ہارون نے ایک چمچہ پارٹی قائم کی تھی جس کا مقصد ان تمام چمچوں کو منظم کرنا تھا جو کسی پارٹی میں شامل نہیں تھے یہ صاحب اس میں بھی نہیں تھے نئے انتخابات اس پارٹی کے ہو گئے ہوں تو ہمیں علم نہیں سو یہ کنوینر صاحب کون ہیں؟ ممکن ہے نفاذ اسلام کے ٹھیکیداروں میں ان کا بھی نام ہو لیکن یہ علم اب تک کسی کو نہیں ہے یہ ہمیں معلوم ہے کہ اسلام کو نافذ کرنے میں ان کا قطعی ہاتھ نہیں ہے
پھر یہ بات بھی کنوینر صاحب کو معلوم نہیں کہ موجودہ حکومت نہ اپیلیں کرتی ہے اور نہ سنتی ہے اپیل نہ کرنے کی وجہ ظاہر ہے کہ اپیل کس سے؟ سو عوام سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں صدر ضیاء خود ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں بعض وزراء تو یہ تک پوچھتے پائے گئے ہیں کہ آج کل عوام کا تھوک کا بھاؤ کیا ہے آپ خود ہی سوچئے کہ کوئی تھانیدار اپنے حلقے کے لوگوں سے اپیل کر کے اپنا بھرم کھوئے گا؟ لہذا موجودہ حکومت کوئی اپیل نہیں کرتی۔
ہمیں تو خدشہ یہ ہے کہ کنوئینر صاحب صدر ضیا کے نام پر اپیل کرنے کے جرم میں اب تک گرفتار ہو چکے ہوں گے ہماری سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آئی کہ اسلامی نظام کے نفاذ میں صدر ضیاء کے ہاتھ کن طاقتوں کے خلاف مضبوط کریں وہ کون سے طاقتیں ہیں جو اسلام کا نفاذ نہیں چاہتیں پہلے تو ہمارا خیال امریکہ اور اسرائیل کی طرف گیا لیکن پھر یہ سوچ کے بڑی شرمندگی ہوئی کہ امریکہ نے توآج تک اسلام کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا بلکہ اسلام کی توسیع و اشاعت کے لیے ہمارے بعض جماعتوں کو ڈالر کے جہاز بھیجے اپنے لے پالک بھیجے زہرا نونا کو بھیجا افغان مجاہدین کے لئے امداد بھیجی- رہا اسرائیل تو گو اس کا ارادہ مکہ معظمہ سے اسلام آباد تک قبضہ کرنے کا ہے لیکن اس نے بھی ابھی تک اسلام کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا ہے اور انتخابات کے لیے ہم ممنونیت و تشکر کا اظہار کئی بار کر چکے ہیں رہی مکہ معظمہ سے اسلام آباد تک قبضہ کرنے کی بات تو وہ بھی مسلمانوں کی بہتری کے لیے ہے اس طرح تمام مسلمانوں میں وہ اتحاد قائم ہو جائے گا جو یاسر عرفات کے تحت فلسطینیوں میں موجود ہے
امریکہ اور اسرائیل تو سب بری ہو گئے پھر ہمارا خیال مختلف اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کی طرف گیا کہ شاید یہ لوگ ہمارے ملک میں نفاذ اسلام نہیں چاہتے ترکی والے تو خود بھی فوج کے تحت اسلامی آئین بنا رہے ہیں ایران میں ملائیت کے اقتدار کا آخری سہارا نفاز اسلام ہے سعودی عرب کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ بادشاہ کلید بردار ہوتا ہے پھر سعودی عرب ہمیں زکواۃ کیی بڑی بڑی رقوم اس لیے دیتا ہے کہ ہم ارکان اسلام کے عادی بن جائیں انڈونیشیا کا بھی مسئلہ نہیں کیونکہ وہاں سے زہرا نونا تشریف لائی تھی اردن عراق شام کو ہم سے کوئی دلچسپی نہیں اب رہ گئے روس- افغانستان اور ہندوستان- ہم نے گدو تھرمل بجلی گھر اور اسٹیل ملز کے روسیوں کو جا پکڑا لیکن وہ لوگ قسمیں کھانے لگے کہ ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے ہم نے ان پر یہ الزام بھی لگایا کہ انہوں نے افغانیوں کو بھڑکا کر ہمارے ملک میں نفاذ اسلام کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی ہے وہ اس سے بھی صاف انکار کر گئے یوں تو پہلے بھی ہمارا یہ تو پہلے بھی ہمارا شبہ اندرا گاندھی کی طرف تھا لیکن اب تو کوئی اور ہمارے سامنے بھی نہیں- لہذا ہم سوچ رہے ہیں کہ کنار سے مناسب موقع پہ اندرا گاندھی سے نپٹ لیا جائے یہ صرف ہمیں خیال آیا کہ وہ اتنی دور بیٹھ کے براہ راست دخل نہیں دے سکتیں
لیجیۓ ان کنوینئر اپ کی ہمدردی ہم پھر یہ بھول گئے کہ صدر ضیاء نےتو کوئی اپیل کی ہی نہیں کیونکہ مارشل لاء میں تو آرڈیننس نافذ ہوتے ہیں یا سمری ملٹری کورٹ ہوتی ہے اپیل ہوتی ہی نہیں ہمارے خیال میں تو اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے ایک آرڈیننس کافی ہے کہ اج سے بلکہ ابھی سے اسلامی قوانین کی تمام تعزیرات نافذ کی جاتی ہیں اس کے بعد کسی کی مجال ہے کہ خلاف ورزی کر سکے اول تو ہمیں شبہ نہیں کہ کوئی شخص اپنے ملک میں اسلامی قوانین کی مخالفت کرے لیکن یہ بفرض محال اگر کوئی ایسا کرے بھی تو ایک آرڈیننس کے ذریعے اس سے بھی نپٹا جا سکتا ہے ہاں یہ بات ضرور ہے کہ لوگوں کو اپنی عادتیں بدلنے اور نئی عادتیں اپنانے میں پانچ سال لگ جائیں گے موجودہ حکومت اتنے عرصے تو رہے گی مثلا سیاسی لیڈر اور جماعتیں ہیں پوری تاریخ دیکھ جایے فرقےتو آپ کو بہت ملیں گے سیاسی جماعت کوئی نہ ملے گی اور یہ کوئی مشکل نہیں کہ پانچ سال میں ہم سیاسی جماعت کی عادت ترک کر کے فرقے بنانے کی عادت ڈال لیں ہمارے بیشتر علماء جو سیاست میں الجھ گئے ہیں اس گناہ بے لذت سے بچ جائیں گے اور پھر زیادہ وقت اس نکتے پہ مناظرہ کرنے میں صرف کر سکیں گے کہ کیا فرشتے سوئی کی نوک پہ اتر سکتے ہیں
عوام میں توکل و قناعت کی ایسی عادتیں پڑ جائیں گی کہ جو انتخابات کے بارے میں بے قراری ہے دور دور تک نہ ملے گی ہمیں بس ایک ہی فکر ہے کہ ہم بہت گنہگار لوگ ہیں اور ہم اپنے گناہوں کے سزا اکثر بھگتتے رہتے ہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ قاضی صاحبان کو بہت زیادہ اختیارات مل جائیں اور جیل کے باہر کی سزاؤں کو جیل کے اندر کی سزاؤں سے ضرب ہو جائے بہرحال ہمارا تو کیا ہے صدارتی کابینہ وزارتوں کے سیکرٹریوں کو عدالت میں حاضری سے استثنی دیا جائے اس مشورہ کی وجہ یہ امکان ہے کہ ان کے خلاف اتنے دعوے دائر ہوں گے کہ عمر خضر بھی ہوگی تو گزر جائے گی اور سرکاری کام ایک دن بھی نہ ہو سکے گا یہ مشورہ ہماری حب وطنی پر دلالت ہے ان لوگوں کو بچانے کے لیے نہیں
یقینا یوسف قریشی صاحب کو اب یہ یقین آگیا ہوگا کہ پاکستان میں کوئی شخص نفاذ اسلام کے خلاف نہیں اور انہیں حقیقتا” ایسی اپیلیں کرنے کی ضرورت نہ تھی نہ ہے نہ ہو گی اور یہ تو بالکل اچھی بات نہیں ہے کہ اس طرح دیواروں پر لکھوایا جائے- اگر کوئی غیر ملکی ان اپیلوں کو پڑھے تو کیا سوچے گا اس شہر کے لوگ ورنہ کم از کم اس علاقے کے لوگ جہاں اپیلیں لکھی ہیں قطعا اسلام کو پسند نہیں کرتے یہ بھی اچھا ہوا کہ یہ اپیلیں ریلوے یارڈ کی دیوار پہ لکھی ہیں جس کے ایک طرف سڑک ہے اور دوسری طرف مال گاڑیاں جہاں تک ان کے کنوئینر ہونے کی بات ہے تو میرے بھائی اللہ بڑا مسبب الاسباب ہے وہ جہاں سے چاہے رزق عطا کرے اس بارے میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں