بیچارے غریب عوام صرف ساڑھے چار سال میں پکے مسلمان ہو گئے

تحریر – شاہد رضوی
ہم غریب عوام نہ تین میں نہ تیرہ میں- لیکن پھر بھی شرمندہ نہیں کہ ہمارے نام پر کچھ لوگ ایسی حرکات کے مرتکب ہو رہے ہیں کیا ہم اخبار میں فی الفور حسب ذیل اعلان شایع کرانے میں قطعی حق بجانب ہیں
مسمیان فلاں فلاں جو اپنے نسبت ولدیت ہم عوام کی طرف منتقل کرتے ہیں ایسی حرکات کے مرتکب ہو رہے ہیں جو قطعی ناقابل برداشت اور ہماری عزت آبرو اور ساکھ کے خلاف ہیں ہم انہیں عاق کرتے ہیں اور آئندہ ہمارے نام پر ان سے لین دین کرنے والا اپنے نقصان کا خود ذمہ دار ہوگا نیز ہم اعلان کرتے ہیں کہ اگر ان مسمیان نے دخل در معقولات جاری رکھی تو ہم اپنے جائیداد یتیم خانہ کے نام وقف کر دیں گے
گو ہمیں امید نہیں کہ اس اشتہار سے خاطرخواہ فائدہ ہوگا کیونکہ جو بری عادتیں ان حضرات کو پڑ گئی ہیں وہ مشکل سے چھوٹیں گی لیکن یہ تو ہوگا کہ جو لوگ اعلان کر رہے ہیں کہ عوام انتخابات نہیں چاہتے انہیں عاق شدہ سمجھا جائے گا یا یہ کہ عوام انتخابات تو چاہتے ہیں لیکن چند ایسی شرائط کے ساتھ کہ انتخابات بے معنی ہو جائیں انہیں بھی عاق شدہ اور جائیداد سے بے دخل سمجھا جائے- کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ عوام غیر مشروط انتخابات چاہتے ہیں لیکن یہ بھی ایسی اولادیں نہیں ہیں کہ جن پہ کوئی باپ فخر کر سکے- ان کا حال اس شرابی جواری بیٹے کا سا ہے جو اخلاقی دباؤ زیادہ ہونے پر اپنی حرکتیں چھوڑ دے لیکن اخلاقی دباؤ کم ہوتے پھر سے شرابی جواری ہو جائے مارشل لاء کی حمایت کرتے ہیں اور جب مارشل لاء والے بند کر دیتے ہیں تو بیوی بچوں کو نکال دیتے ہیں کہ جا کر جمہوریت کی لڑائی لڑو بیوی غریب قہر درویش بجان درویش- جمہوریت کے نام پہ میاں کو رہا کرانے کی جدوجہد شروع کر دیتی ہے
یوں تو یہ سارے لوگ ہمارے نام پہ اپنے گروہی و ذاتی مفادات کے چکر میں اونگی بونگی باتیں کرتے ہیں لیکن ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ان معاملات میں آخری حدوں تک جاتا ہے یعنی ایک طرف حکومت کے آگے ہاتھ جوڑتا ہے کہ خدارا انتخابات نہ کراؤ ہمیں حکومت میں شامل کر لو خواہ بعد میں دھکے دے کر نکال دینا اور فورا” ہی عوام کے آگے ہاتھ جوڑتا ہے کہ ہم نے تو انتخاب کے علاوہ کوئی لفظ کہا ہی نہیں ان لوگوں کو بائیولوجی کی زبان میں خطرناک طفیلی کیڑے کہا جاتا ہے یہ ایسے مہمان ہیں جو میزبان کو دیمک سے زیادہ تیزی سے چاٹ جاتے ہیں اور یہ جو غریب عوام نے اشتہار اوپر دیا ہے اس میں مسمیان کے آگے بیشتر نام انہی کے آتے ہیں
اس اشتہار کا اشارہ ان لوگوں کی طرف بھی ہے جن کا اصل پیشہ تو پیری مریدی، اسلام کی ٹھیکیداری، شکار و تبلیغی دورے ہیں لیکن جز وقتی مشغلہ سیاست ہے بیٹریں پکڑنے سے فرصت ملے تو ایک بیان داغ دیا یا (بٹیریں اصلی والی بھی اور روحانی بھی) دعوت کے وقت ڈکار آگئی تو پریس کانفرنس کر دی آج کل یوں بھی پیری مریدی کا دھندہ کچھ مندہ ہو گیا ہے اور غریب عوام اسلام پر کسی کی ٹھیکیداری ماننے پر تیار نہیں کیونکہ روٹی روزگار نہ ہو تو نہ ہو ہمارے پاس ایمان بہت ہو گیا ہے سو ان حضرات کا زیادہ وقت دعوتوں اور سیاست میں گزرتا ہے اگر کچھ نہ کچھ کرنا ضروری ہے تو بھائی سیاست سے بہتر ہے کہ کنواروں کی شادی کراؤ تمہاری پبلک ریلیشنگ بہت اچھی ہے دو چار بیوائیں تمہارے ہاتھ بھی لگ جائیں گی عوام کے ساتھ تو بیواؤں والا سلوک نہ کرو
یہ تو وہ لوگ ہیں جن میں سے کچھ عوام کو بے وقوف سمجھ کر بولتے ہیں کچھ اپنے آپ کو لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیوں بولتے ہیں اور جو کچھ بولتے ہیں اس کا مطلب کیا ہے مثلا” آئین کے بارے میں لوگ اس طرح بولے ہیں جیسے کووں کا تعزیتی اجلاس ہو رہا ہے ایک صاحب نے تو سیاستدان کو ریٹائرڈ ہونے کا مشورہ دے دیا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری اور بانسری بجے تو اس کی بانسری جو اب بھی بج رہی ہے
ان حالات میں اگر غریب عوام ان سب کو عاق کرنے پر تلے ہوں تو کیا بیجا ہے ہم سے تو ہمارے مسائل کوئی پوچھتا ہی نہیں سب اپنی طرف سے ہمارے نام تو بہ نو مسائل مرثیہ نو تصنیف کی طرح ایجاد کرتے رہتے ہیں کہ ہم جمہوریت کی جس جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں اس میں اپنی حکومت بنانے کے حق میں ساتھ ساتھ روزگار صحت تعلیم مہنگائی وغیرہ کے مسائل پر جدوجہد بھی شامل ہے سو تم جو یہ اونگے بونگے بیانات دے رہے ہو تو آخر وہ کیوں نہیں کہتے ہیں جو ہم کہتے ہیں تو ہم تمہیں عاق کیۓ دیتے ہیں ہم جو یہ آٹھ کروڑ غریب عوام ہیں ہمارے لیے تمہاری نیتوں کا محاسبہ کرنا کوئی مشکل نہیں لبادہ شیروانی یا بشں شرٹ سے فرق نہیں پڑے گا من انداز قدرت نامی شناسم
یوں بھی گزشتہ ساڑھے چار سال میں ہم اتنے پکے مسلمان ہو گئے ہیں کہ گزشتہ 800 سال میں نہ ہو سکے تھے سو تم کتنا ہی اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اور قسمیں کھا کر جھوٹ بولو ہمیں یقین نہ آئے گا ہمیں ایک نسخہ کیمیا معلوم ہے جس کا عمل سچا وہ خود سچا ورنہ سب جھوٹ- عمل اس کا سچا ہے جو ہم سے پوچھ کر ہم میں رہ کے ہماری بات کرتا ہے خواہ موت کے منہ میں ہو-
سچ یہ ہے کہ
کشنہ نہ شدانہ قبیلہء ماینسیت