بین السطور کا سب سے بڑا سوالیہ نشان؟

تحریر – شاہد رضوی

ہم ان لوگوں میں سے تو نہیں جو خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر لیکن مسلسل مشق کے نتیجے میں بین السطور پڑھنے کے ماہر ہو گئے ہیں یعنی وہ سب کچھ پڑھ لیتے ہیں جو لکھا ہوا نہ ہو

یہ مہارت حاصل کرنے کے لیے ہمیں بہت سے تلخ تجربات سے گزرنا پڑا مثلا” یہ کہ ہماری محبوبہ ہمیشہ ہمارے خطوں کے نہایت روکے اور کھرے جواب دیا کرتی تھی ایک دفعہ اس نے ہمیں ملاقات کا وقت دے دیا ہم نہایت خوش ہو کر ملنے پہنچ گئے وہاں پہنچ کے جو مار ہم نے کھائی خدا آپ کو بھی نصیب کرے

یہ تو ہوا کہ یاراں فراموش کردند عشق- لیکن یہ فائدہ بھی ہوا کہ ہم نے انتہائی انعماک سے بین السطور پڑنے کے مشق شروع کر دی اسی مشق و مہارت کا نتیجہ ہے کہ جیسے ہی صدر صاحب نے 14 اگست کو سیاسی ڈھانچہ ملک کو دینے کا اعلان کیا ہم نے فورا” ہی وہ پڑھ لیا جو اس اعلان میں نہیں تھا

اب یہ تو محبوبہ کا خط تو تھا نہیں کہ جس کے ایک ہی پہلو تھا جسے ہم نظر انداز کر گئے اور یہ نہ سمجھے کہ محبوبہ کا موڈ ایک دم کیسے تبدیل ہو گیا بہرحال اب ہم ایسی کسی خوشگوار حیرت سے دوچار ہونے کے لیے تیار نہیں یہ تو دراصل ایک سیاسی بیان ہے جس کے ہزارہا پہلو ہیں اور بین السطور بر ستر باریک باریک لائنوں میں اتنا کچھ لکھا ہے کہ پوری تفصیلات آپ کو بتانا ناممکن بھی ہے اور خلاف مصلحت بھی

لہذا چند موٹی موٹی باتوں پر اکتفا کیجئے –  تفصیلات تو آپ کو آئندہ تاریخ کی کتابوں میں بھی مل جائیں گی لیکن اگر اس دور کی تاریخ لکھی گئی (یہ خدشہ موجود ہے کہ حکومت کسی مارشل لاء آرڈر کے ذریعہ اس دور کی تاریخ لکھنے پر پابندی لگا دے گی)

تو صاحب پہلی بات جو ہمارے ذہن میں آئی وہ یہ کہ جس سماجی ڈھانچے کا تذکرہ ہے وہ تیار نہیں ہے گزشتہ چھ سات ماہ کی محنت شاقہ کے باوجود تیار نہیں ہو سکا لہذا اس وقت یہ بتانا بھی ممکن نہیں کہ کب تک تیار ہوگا خدا بھلا کرے پیرصاحب پگارا کا کہ انہوں نے ہماری بات کی تائید کر دی اور صاف صاف بتا دیا کہ اسے اعلان میں سن کا کہیں ذکر نہیں ہے لہذا 14 اگست سے ہرگز 1983ء مراد نہیں ہے بلکہ اس سے 1994ء سمجھنا چاہیے

مزید تصدیق اس بات کی ہوتی ہے کہ ایک غیرآئینی مجلس شوری آئینی ڈھانچے پر غیر آئینی بحث مباحثے میں مشغول ہے ظاہر ہے کہ خواجہ صفدر اس ڈھانچے کو پاس نہ ہونے دیں گے کیونکہ انہیں بھی اپنی روزی اور روزگار عزیز ہے

دوسری بات جو بین السطور میں بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے یہ کہ وہ حکومت جو گزشتہ سات سال سے ہم سے کچھ سب کچھ لیتی آئی ہے یعنی ملک لے لیا جمہوریت لے لی آزادیاں چھین لیں روزگار لے لیا وغیرہ وہ آج کچھ دینے پہ کیسے آمادہ ہے جب کوئی اور وجہ نہیں ہے تو یہ یقینی شبہ ہے کہ اب حکومت آئینی ڈھانچہ دے کر عوام کے ڈھانچے لینا چاہتی ہے اس کے بعد حکومت کی مرضی ہے کہ ان ڈھانچوں کو براہ راست سعودی عرب مسلمان ہونے کے لیے بھیج دے اور اگر یہ ڈھانچے مسلمان ہونے کے قابل نہ ہو تو پاکستان میں امریکی فصلوں کے لیے سونا یوریا کے طور پہ استعمال کرے

تیسری بات جو بین السطور میں موجود ہے کہ سیاسی ڈھانچے کا مقصد انتخابات ہیں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انتخابات کا سیاسی ڈھانچے سے کوئی تعلق ہی نہیں انتخابات کا تعلق تو ووٹ کی پرچی سے ہے اور ووٹ کی پرچی عوام کے ہاتھ میں ہوتی ہے یحیی خان کے لیگل فریم ورک آرڈر کا حشر اسی ووٹ کی پرچی نے خراب کیا تھا اگر کوئی سیاسی ڈھانچہ جماعت مودودیہ کے دیندار اور پارسا طفیلیوں کو جتوا سکتا تو یقین جانیے کہ انتخابات کئی مرتبہ ہو چکے ہوتے- لیکن مشکل یہ ہے کہ اب تو ان کے گھر کے ووٹ بھی کٹ گئے ہیں

انتخابات کے راستے کی اصل رکاوٹ سیاسی ڈھانچہ کی غیر موجودگی نہیں بلکہ ایک بوڑھی عورت ہے اور ایک لڑکی ہے جو گرجتی ہے تو شیرنی کی طرح اور خاموش ہوتی ہے تو سمندر کی طرح – اور عوام ہیں جو طوفانوں سے پہلے کے سناٹے کی ریہرسل کر رہے ہیں بھٹو کا سایہ تو اس ملک کے سیاست پر 50 سال تک گہرا رہے گا ہے کوئی سیاسی ڈھانچہ جو سمندر سے اس کے لہریں چھین سکے

ہمیں اعتراف ہے کہ اتنی مہارت کے باوجود کبھی کبھی بین السطور پڑھنے میں بری طرح ناکام رہتے ہیں اور ہمیشہ اس وقت ہوتا ہے جب ہمارا سابقہ ان صاحب کے بیان سے پڑھتا ہے جن کے بینات کی وجہ سے ہمارے فکایہیہ کالم کی قدرمسلسل گھٹتی جا رہی ہے ہمارا اشارہ پیر صاحب پگارا کی طرف ہے جن کا حال میں بیان آیا ہے کہ ایم آر ڈی برسات میں تحریک نہیں چلا سکتی سچ یہ ہے کہ بین السطور تو الگ ہم اس جملے ہی کا مطلب نہیں سمجھ سکے جملہ نہ تو استعجابیہ ہے نہ استفہامیہ بلکہ خالص بیانیہ جملہ ہے جس میں گرامر کی کوئی غلطی موجود نہیں ہے کمال یہ ہے کہ پھر بھی جملہ سمجھ میں نہیں آیا

پیر صاحب پگارا کی سیاست میں شہرت دوام کا راز ایسے ہی جملوں میں پوشیدہ ہوتا ہے شاید پیر صاحب کا خیال یہ ہے کہ برسات میں مینڈکوں کی ٹرٹر بہت تیز ہوتی ہے جو تحریک کے شور اور نعروں کو دبا لے گی اس لیے ایم آر ڈی والے برسات میں تحریک نہیں چلا سکتے ہمیں یقین ہے کہ پیر صاحب نے کسی بڑی تحریک کسی بڑے جلوس کو نہیں دیکھا ورنہ انہیں معلوم ہوتا کہ جلوس کے پیروں کے نیچے آکرمینڈکوں کا کیا حشر ہوتا ہے ہاں اگر دور کسی تالاب کے کنارے ٹرٹراتے رہیں تو یہ مشغلہ تو اب بھی جاری ہے

بات سمجھ میں آسکتی تھی اگر پیر صاحب یہ وضاحت بھی کر دیتے کہ ایم آر ڈی کس موسم میں تحریک چلا سکتی ہے خیر اب بھی وقت نہیں گیا وہ چاہیں تو وضاحت کر سکتے ہیں پیر صاحب کا دوسرا بیان ہے کہ انتخابات 1996ء میں ہوں گے جب کہ پشاور میں پیر صاحب کے نائب امر کا بیان ہے کہ انتخابات جلدی ہوں گے ہم اس شش و پنج میں ہیں کہ کس بیان کو کس بیان کا بین السطور سمجھا جائے یعنی ان دونوں بیانات کے بیچ سے نتیجہ کیا اخذ کیا جائے خیر ابھی سمجھ میں نہیں آرہا نہ سہی پیر صاحب زندہ رہیں ہماری مشق بڑھتی رہے گی اور آگے چل کے ہم فخر سے اعلان کر سکیں گے کہ پیر صاحب کے بیانات کا مقصد صرف ہم سمجھتے ہیں

 

Scroll to Top