ایک بڑے ہسپتال کے بڑے ڈاکٹر سے ملئیے


اس ڈاکٹر نے مجھے یہ انٹرویو بڑی دیانت داری سے دیا
تحریر شاہد رضوی
یہ ایک انٹرویو ہے جو میرے ایک ڈاکٹر دوست نے انتہائی دیانت داری سے دیا اور جسے میں انتہائی بددیانتی کے ساتھ خلق خدا کی اطلاع کے لیے شائع کر رہا ہوں اور محض خدمت خلق کے لیے اپنی جان کا خطرہ مول لے رہا ہوں میرے یہ ڈاکٹر دوست ایک دو منزلہ وسیع و عریض ہسپتال کے مالک ہیں اس انٹرويو کا کچھ حصہ جو ذاتی معاملات و گالم گلوچ پر مشتمل ہے میں نے حذف کر دیا ہے انٹرویو کا خاتمہ بھی ایکا ایکی ہوا ہے کیونکہ آخری سوال کے جواب سے پہلے ہی میں کمرے سے باہر نکل چکا تھا ورنہ سر پہ پڑنے والا پیپر ویٹ مجھے براہ راست جنرل وارڈ میں لے جاتا اب آپ سوالات و جوابات ملاحظہ کیجیے
سوال- ڈاکٹر صاحب آپ نے اپنے ہسپتال کا نام منی کیئر کلینک کیوں رکھا؟
جواب- یار بات یہ ہے کہ میں بہت صاف گو آدمی ہوں میرے ہسپتال میں علاج مریض کی جیب دیکھ کر ہوتا ہے
سوال- یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ مریض تو انتہائی تکلیف یا بے ہوشی کی کیفیت میں آتا ہے؟
جواب- بھائی مریض کے کپڑوں سے اس کے حیثیت کا پتہ چلتا ہے پھر بے ہوشی کے دوران معائنہ کرتے وقت ہمارے ڈاکٹر خاص طور پہ مریض کے بٹوا کا معائنہ کر لیتے ہیں اگر اس پہ بھی ہمارا اطمینان نہ ہو جو ہم فورا تین چار انتہائی مہنگی دوائیں لکھ کر دے دیتے ہیں کہ ہمارے میڈیکل سٹور سے خرید لیں اگر مریض یا اس کے رشتہ دار یہ دوائیں خرید لیں تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ باآسانی چھ سات ہزار کا بل بن سکتا ہے
سوال- اگر مریض یہ دوائیں نہ خرید سکے تب؟
جواب- اس صورت میں ہم مریض کو انتقال کرنے کی کھلی اجازت دے دیتے ہیں ڈسٹلڈ واٹر کے دو انجیکشن دے کے کہتے ہیں کہ بیڈ خالی نہیں ہے
سوال- ڈاکٹر صاحب یہ تو کھلی ہوئی پیشہ ورانہ بددیانتی ہے؟
جواب- ابے چپ میں نے کیا شہر کے یتیموں کا ٹیکہ لے رکھا ہے
سوال- ڈاکٹر صاحب مریض کی خریدی ہوئ دوائیں آپ کیا کرتے ہیں؟
جواب- اپنے میڈیکل اسٹور میں واپس بھیجوا دیتے ہیں تاکہ دوسرے مریضوں سے خریدنے کو کہیں – اس طرح ہماری ہر دوا کئی مرتبہ سلور جوبلی منانے کے بعد صد سالہ جشن قیام منانے والی ہے اصل میں ہمارا میڈیکل سٹور تاریخی شے ہے اس میں بعض دوائیں ایسی ہیں جن کی بنانے والے کمپنیاں ان کے نام تک بھول چکی ہیں
سوال- اچھا ڈاکٹر صاحب اگر مریض ہو مہنگی دوائیں تو خرید لے لیکن بعد میں بل ادا کیے بغیر چلا جائے؟
جواب- آدمی تھانے سے رشوت دیۓ بغیر نکل سکتا ہے لیکن میرے ہسپتال سے بل ادا کیے بغیر نہیں جا سکتا ہم پہلے ہی احتیاطی تدابیر اختیار کر لیتے ہیں مریض کو بیڈ اسی وقت دیتے ہیں جب ایڈوانس پانچ ہزار جمع کر لیتے ہیں اور چوتھے دن مریض کو اطلاع دے دیتے ہیں کہ مزید پانچ ہزار جمع کرائے
سوال- ڈاکٹر تم میں انسانی ہمدردی بالکل نہیں ہے
جواب – کیوں نہیں بھائی بہت زیادہ ہے انسانی ہمدردی کا شدید خمیازہ بھی بھگتنا پڑ رہا ہے اب یہ جو ہسپتال کے سامنے تیس چالیس کاریں کھڑی ہیں یہ ان لوگوں کی ہیں جو بل ادا نہیں کر سکے اور مجھے انسانی ہمدردی میں یہ کاریں قبول کرنا پڑیں اور اس کیبنٹ میں لوگوں کے مکانوں کے کاغذات بھرے ہیں میں مجبورا” قبول کر لیتا ہوں اور اس سے زیادہ انسانی ہمدردی کیا ہوگی کہ میں ان دو بچوں کو بھی پال رہا ہوں جن کے ماں باپ جب تیسری دفعہ مرتبہ ایڈوانس جمع نہیں کرا سکے تو بچوں کو چھوڑ کر چلے گئے –
سوال- ڈاکٹر کیا یہ بڑے شرم کی بات نہیں؟
جواب- بل ادا نہ کرنے والوں کے لیے تو یقیننا” شرم کی بات ہے لیکن میرے لیے مصیبت ہو گئی ہے مجبورا مجھے کاروں کا شوروم قائم کرنا پڑا ایک محکمہ جائیدادوں کے سلسلے میں قائم کیا اور مستقل ایک وکیل رکھنا پڑا
سوال- اس ہسپتال کے اور کتنے ذیلی محکمے ہیں؟
جواب- بس یہی دو چار اور ہیں
سوال- آپ کے ہسپتال میں مریضوں کو کیا سہولت ہے علاج کے علاوہ؟
جواب- علاج کے علاوہ ہم مریض کو بیڈ دیتے ہیں کمرے کے روزانہ صفائی کراتے ہیں ورڈ بوائے اور نر سیں مستعد رہتی ہیں کھانے کے لیے کینٹین ہے جہاں 75 روپے روز ادا کر کے مریض کھانا کھا سکتا ہے چائے کی کینٹین الگ ہے 300 سے زائد بیڈ ہیں جو ہر کمرے میں چار بیڈ کے حساب سے رکھے ہیں تاکہ مریض کسی وقت بھی تنہائی محسوس نہ کریں
سوال- آپ کے ہسپتال میں ڈاکٹر کتنے ہیں؟
جواب- دو ڈاکٹر اور دو لیڈی ڈاکٹر ہر ایک 24 گھنٹے ڈیوٹی دیتا ہے
سوال- کیا یہ ڈیوٹی لمبی نہیں یہ خطرناک بھی ہو سکتی ہے کہ ڈاکٹر غلط دوا لکھ
دے
جواب- ارے یار تو کیا میں ہسپتال کی ساری آمدنی ڈاکٹروں کی تنخواہ پر خرچ کروں تم پاگل تو نہیں ہو؟ یہ جو انیکسی بنوا رہا ہوں اور ڈیفنس میں اپنے بنگلے کی تعمیر کرا رہا ہوں اس کے لیے چندہ مانگنا شروع کر دوں یا پھر کئی بڑے بڑے ڈاکٹر ہیں اسپیشلسٹ ہیں یہ سب بھی مریضوں کو دیکھتے ہیں
سوال- اچھا ڈاکٹر صاحب آپ کا شعبہ کیا ہے؟
جواب- بھئی میرا شعبہ ایسا ہے کہ جس میں مریض مرتا نہیں گھسٹتا رہتا ہے میرے شعبے میں ہفتے بھر تو مریض کے مختلف ٹیسٹ ہوتے ہیں اس کے بعد مختلف علاج بدلتا ہوں اگر کسی دوا کا استعمال سے مریض ٹھیک ہو گیا تو خوب ورنہ مریض کو بجلی کے شاک لگوا دیتا ہوں اپنے آپ بھاگ جاتا ہے
سوال- یہ ہسپتال قائم کرنے کا آپ کو خیال کیوں آیا ؟
جواب- تمہیں خود بھی پتہ ہے کہ میری پریکٹس کیسی چل رہی تھی میرے بیشتر مریض میرے پاس سے پوسٹ مارٹم کے لیے جاتے تھے نہ جانے کیا بات تھی کبھی نسخہ غلط ہو جاتا تھا کبھی دوا اور کبھی مریض غلط ہو جاتا تھا پھر میں نے بینک سے قرضہ لے کے ہسپتال قائم کیا اس سے یہ فائدہ ہوا کہ جو بے گناہ میرے ہاتھ سے مارے جاتے وہ بچ گئے دوسرے یہ کہ اب خدا کا فضل ہے بینک کا قرضہ دوسرے مہینے میں ادا ہو گیا تیسرے یہ کہ شہر میں جو طبی سہولتوں کی کمی ہے وہ پوری کر دی چوتھے یہ کہ —
میں نے کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے آخری سوال کیا
ڈاکٹر بس ایک آخری اور ذاتی سوال یہ بتا دو کہ” تم کس نسل سے وقوع پذیر ہوئے ہو؟” اور جواب سے پہلے ہی میں کمرے سے باہر آگیا