آؤ اپوزیشن اپوزیشن کھیلیں

تحریر – شاہد رضوی

اگر ایئر مارشل (ریٹائرڈ) اصغر خان بہک گئے تو کیا تعجب ایک تو بہکنا ان کی عادت ہے پہلے اتفاقا” بہکے پھر حادثتا” بہکے اور اب بہکنا فطرت ثانی بن چکا ہے لہذا اب عادتا” ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں دوسری وجہ جو خاصی قابل معافی ہے یہ ہے کہ حالات بہت خراب ہیں اور ذہنوں پر دباؤ بہت ہے اب اگر ایسے میں اصغر خان صاحب صدر کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اسمبلیاں توڑ دی جائیں تو خان صاحب پر اعتراض کرنا ٹھیک نہیں ہے ہماری نظر میں بھی ان اسمبلیوں کا یہ قصور بہت بڑا ہے کہ ان میں اصغر صاحب کی سیٹ نہیں ہے
خیر اصغر خان میں یہ اچھائی بہت تو ہے کہ اکیلے بہکتے ہیں یہ نہیں کہ پوری جماعت یا جماعتوں کا ملغوبہ بہک رہا ہو اور ایسے کہ معلوم ہوتا ہے اسٹڈ فارم میں گھوڑے دوڑ رہے ہیں آپ نے تحریک استقلال کو بہکتے نہ دیکھا ہوگا نہ یہ دیکھا ہوگا کہ تحریک استقلال کی خواتین سڑکوں پہ کھڑے ہو کے پتھراؤ کررہی ہوں

لیکن صاحب جماعت اسلامی والے کمال کے لوگ ہیں ملاحظہ کیجیے ان کی تازہ ترین مہم منکرات بذریعہ منکوحات جس میں برقعہ پوش خواتین پتھراؤ کر رہی تھی ہدف تھا ایک علامتی ٹی وی – میدان وغا جہاں داد شجاعت دینا تھی ٹی وی اسٹیشن کے آس پاس کوئی سڑک – افواج قاہرہ اسلامی میں ایک دستہ مردان غازی کا تھا دوسرا منکوحات و مستورات کا دونوں کے درمیان علامتی ٹی وی تھا اور دونوں دستے پتھروں سے مسلح تھے بزن کا نعرہ لگتے ہی زنان خانے اور مردان خانےدونوں سے پتھروں کی بارش ہوئی اور علامتیں ٹی وی علامتی ادب کی شکل اختیار کر گیا یعنی چکنا چور ہو گیا یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا خواتین کے کچھ پتھر غلطی سے مردان غازی کے لگے یا مردان خانے سے چلنے والی پتھروں کی ٹریفک کسی دانستہ یا نادانستہ غلطی سے زنان خانے کی طرف پہنچ گئ بہرحال اگر ایسا ہوا بھی تو شکایت کوئی نہیں کرے گا جماعت اسلامی خواتین کے جلوس نکالنے میں ماہر ہیں خاص طور پر ٹی وی پہ مظاہرہ کرانے میں خواتین کے تین میں سے دو مظاہرے ٹی وی پر ہوئے جس میں خواتین نے ٹی وی روڈ پر کھڑے ہو کر ایک گھنٹہ بچوں شوہروں کی صحت پہ نہایت متفکرانہ گفتگو کی اس مظاہرہ میں بھی جب مقرر آمنے سامنے کے دونوں دستوں کو مخاطب کر کے کہہ رہا تھا کہ سرفروشی کی تمنا آج اپنے دل میں ہے اس وقت خواتین ہاتھوں میں پتھر اور گود میں بچوں کو سنبھالے مصروف گفتگو تھیں اور ان کے محویت سے یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ مقرر کے نعرہ اللہ اکبر کے ساتھ یہ بچوں کو ٹی وی پر پھینک کر ماریں گے اور پتھروں کو سنبھالتی ہوئی گھر چلی جائیں گی بہرحال مظاہرہ کامیاب رہا اور سنا ہے کہ خواتین کو مردوں نے ڈانٹ ڈپٹ کر گھر بھیجا ورنہ وہ وہاں سے جانے کو تیار نہیں تھیں جب تک کہ فوٹوگرافر ان کی تصویر نہ کھینچ لے

جماعت اسلامی بڑی گھمبیر جماعت ہے اس کا اعمال نامہ بھی اتنا ہی پیچیدہ ہے کہ فرشتوں کی سمجھ میں بھی نہیں آتا انسانوں کی سمجھ میں اس کے لیڈر نہیں آتے اب ان کے اس مہم کو ہی لے لیجیے دور تک آپ کے گمان میں نہیں آسکتا کہ ٹی وی کے خلاف مہم اسلامی خواتین کو پتھر پھینکوانے کی مشق کرانے اور درست نشانوں پر پتھر پھینکوانے کے لیے تھی سنا ہے کہ جو مہاجر جماعت اسلامی سے ایم کیو ایم میں چلے گئے تھے انہوں نے کہہ دیا ہے کہ ہم کسی اور سمت نکل جائیں گے جماعت اسلامی میں واپس نہیں آئیں گے لہذا کارکنوں کے خاص طور پر نشانہ بس کارکنوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے یہ جنگی مشق کرائی گئی

ہم نے ایک مولا نا سے پوچھا کہ ٹی وی پہ کیا فحاشی ہوتی ہے تو کہنے لگے مہتاب اکبر راشدی دوپٹہ نہیں اوڑھتی قائم علی شاہ ٹوپی نہیں پہنتے آصف علی زرداری کی تصویر خطرناک مونچھوں کے ساتھ اور بے نظیر کی تصویر بغیر داڑھی کے آتی ہے ہم نے عرض کیا کہ زیادہ سے زیادہ یہ غیر اسلامی ہوا فحاشی کیسے ہوا کہنے لگے ٹی وی اپوزیشن کی خبریں نہیں دیتا کبھی آپ نے پروفیسر غفور کو ٹی وی پر دیکھا ہے ہم نے اعتراف کیا کہ واقعی ہم نے نہیں دیکھا – یہ شکایت ہے کہ ٹی وی پر اپوزیشن کو نہیں دکھایا جاتا گزشتہ ایک سال سے سی او پی کے تمام لیڈر اور ان کے لواحقین کہہ رہے ہیں کہ خبرنامے کا اور بچوں کے سونے کا وقت ایک ہے کیا وہ چاہتے ہیں کہ پوری قوم کے بچے رات بھر چیخیں مار مار کر روتے رہیں ویسے ہم اس بات کی شدید حمایت کرتے ہیں کہ ان لیڈروں کو ضرور ٹی وی پہ دکھانا چاہیے لیکن مشکل یہ ہے کہ وقت کون سا ہو خبرنامہ کا وقت بچوں کے سونے کا ہے کچہری پروگرام کے لیے مناسب نہیں ہے موسیقی کے پروگرام ان کے لیے مناسب نہیں ہیں یہی ہو سکتا ہے کہ مستنصر حسین تارڑ سے کہا جائے کہ صبح کی نشریات ختم کرتے وقت ان کی کمپیوٹرائزڈ شکلیں دکھا دیا کریں ان کا مطالبہ بھی پورا ہو جائے گا بچوں کے ڈرنے یا اخلاق خراب ہونے کا خدشہ بھی نہیں رہے گا کیونکہ بچے اس وقت سکول میں ہوتے ہیں ورنہ ان کی تقاریر میں قوم کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے لیے جو ناشائستہ زبان و گالیاں ہوتی ہیں اس سے ان کے پیران نابالغ کی عزت کیا جائے گی بچے بگڑ جائیں گے

ہماری جو ہماری اپوزیشن بھڑوں کا چھتہ ہے جو قریب سے گزرا اسے کاٹ لیا اگر کوئی قریب نہ آیا تو دور جا کر کاٹ لیا اور دور کوئی نہ ملا تو اپنوں کو کاٹ لیا کبھی مسلم لیگ کے ڈنک مار دیا کبھی جمات اسلامی کا منہ سجا دیا کبھی مولانا فضل الرحمن تیزی سے دونوں ہاتھ ہلاتے ہوئے زد سے نکل گئے تعمیر یہ صرف اپنے چھتے کی کرتی ہے اور اس کی حفاظت بھی خوب کرتی ہے وسیع اورعریض چھتہ ہے جس میں 17000 ایکڑ کا فارم ہے ایک طرف کسان بودیۓ دوسری طرف گھوڑے اگا لیے بھٹیاں اسی کے ریلوے انجن چھوڑ پورا ریلوے ڈیپارٹمنٹ پگھل جائے صنعتیں ایسی کہ اربوں روپے سے قائم ہے لیکن اربوں روپے لکھنے بھر کی جگہ گھیرتی ہیں اور جموری ملک میں اپوزیشن متبادل حکومت ہوتی ہے ہماری اپوزیشن متبادل ہونے کا انتظار نہیں کرتی عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے سے پہلے احکامات جاری کرتی ہیں خارجہ پالیسی پر بیان تو الگ رہے اشتہار چھپواتی ہے جس میں نواز شریف کو قائد اعظم کی تصویر پر چسپاں کر کے دکھایا جاتا ہے لباس اور انداز قائدا اعظم کا اور گردن سے اوپر نواز شریف قائد کی شیروانی پہ گردن جناب کی جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی کشمیر اور افغانستان پر وہ شعلہ بیانی کی کہ اسلام آباد میں آگ لگ جائے خواہ اس کے لیے ہندوستان سے فوج بلانی پڑیں لیکن بے نظیر کی حکومت نہ رہے تمام قائدین حزب اختلاف ایک دوسرے کی صورت سے بیزار ہیں لیکن ایک نعرے پہ متفق ہیں کہ وفاقی حکومت مستعفی ہو جائے ہر ساز کی صدا یہی ہے وفاقی حکومت استعفے دیدے اور وجہ یہ ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین اپوزیشن سے نہیں ہے اگر ہوتا تو کم از کم بار بار قرضوں کا تذکرہ نہ کرتا وجوہات اور بھی ہیں لیکن تعمیری جذبہ کہیں نہیں ہے ایم کیو ایم کی اتنی حمایت کی کہ بچھ بچھ گئے لیکن جب وقت پڑا تو مہاجروں کو پوچھنے نواز شریف نہ آئے اور سندھیوں کو پوچھنے غلام مصطفی جتوئی نہیں آئے اور ذرا حالات پرسکون ہو جائیں تو پھر دیکھیے گا کہ کیسے کیسے اشتعال انگیز بیانات جتوئی، نواز شریف اور نصر اللہ خان کے یخ بستہ کمرے سے باہر آتے ہیں عوام ہوشیار رہیں کہ لاشوں اصل سوداگر بھڑکانے والے ہوتے ہیں

Scroll to Top