
آج چوتھائ صدی سے زیادہ بیت جانے کے بعد بھی ان کی شاعری انسانی زندگی اوراسکے مسائل کے بےشمار گوشے ابھارتی ہے کہیں بھی محسوس نہیں ہوتا کہ ان کی شاعری آج کے دور کی عکاسی نہیں کرتی ہے شاہد رضوی ایک ترقی پسند شاعر ہونے کے علاوہ کالم نگار اور مصنف بھی تھے
ان کے فکاہیہ کالم اور مضامین روزنامہ امن، مساوات، ڈان، دی نیوز، فنانشیل پوسٹ میں باقاعدگی سے شائع ہوتے تھے ان کا کالم ‘پردہ زنگاری میں’ جو ماہنامہ جفاکش میں شائع ہوتا تھا، بہت مقبول ہوا – اس ویب سائٹ میں ان کی شاعری اور ان کے کالمز کے ساتھ ساتھ ان ہی کی آواز میں ریکارڈ کی گئ ان ہی کی شاعری بھی شامل کی گئ ہے
چند باتیں اپنے نظریہ زندگی اور نظریہ شعر کے بارے میں
بقلم شاہد رضوی
میں انسان کی تخلیق کے سائنسی نظریہ کا قائل ہوں انسان کو تاریخ کی حرکی قوت اور کائنات کی ایسی طاقت سمجھتا ہوں جس کے آگے کائنات اپنے سارے راز کھول رہی ہے- کائنات مسلسل رواں ہے اور نئے نئے روپ اختیار کرتی جارہی ہے اور انسان اس سے صرف چند قدم پیچھے، آگے بڑھ رہا ہے انسان اور کائنات کے تعلق کا یہ نظریہ میری فکر کی بنیاد ہے- کائنات کے حسن سے انسان کا رشتہ ناقابل شکست ہے- انسان نے کائنات کو حسین تر بنا دیا ہے اس عمل میں انسان نے خود کو بھی حسین تر بنا لیا ہے زندگی جو فطرت کے قوانین کے تحت پیدا ہوئ انسانی عمل سے مستحکم ہوتی جارہی ہے تمام انسانی جذبے کسی نہ کسی طرح قوت تخلیق کے مظاہر ہیں
میرا نظریہ شعر یہ ہے کہ شعر انسان کے تہذیبی جذبوں کو سنوارنے، کائنات اور انسان کے درمیان شعور کی رو گہرا کرنے، انسان کو انسان سے متعارف کرانے – تزئین حسن اور شعور حسن عام کرنے کا ذریعہ ہے
****************************************
یہ اقتباس شاہد رضوی کے شعری مجموعہ ‘شہر وفا’ سے لیا گیا ہے جس کا پیش لفظ / تعارف انہوں نے خود تحریر کیا تھا اور اپنی سوچ، نظریہ اور فکر کے بارے میں گفتگو کی تھی 31 اگست 1997ء کو جب دل کے ایک دورے کے باعث ان کا اچانک انتقال ہوا اس وقت ان کے دو شعری مجموعے طباعت کے مراحل میں تھے 1998ء میں وہ دونوں شعری مجموعے شہر وفا اور دشت حیراں شائع ہوۓ ایک طویل عرصہ کے بعد کلیات شاہد رضوی جس میں شہر وفا، دشت حیراں کے علاوہ ان کا غیر مطبوعہ کلام – قباۓ جنوں – کے نام سے بھی شائع کیا گیا ہے ان کی شاعری کو پڑھ کر قاری کو محسوس ہوگا کہ یہ اس کے دل کی آواز ہےچاہے وہ غم دوراں ہو یا غم جاناں
درد کی لہروں سے بنتے ہیں صحیفے جتنے
ہجر کی شب دل محزوں پہ اتر آتے ہیں
کس کے سر جاۓ گا الزام وفا میرے بعد
کس کو ہوگا دل وحشی سے گلہ میرے بعد
مانوس ہے یہ شہر ترا ہم سے کچھ ایسا
کہ ساتھ ہمارے در ودیوار چلے ہیں
بولے ہیں تو تعزیر لب و نطق ملی ہے
سر لے کے چلے ہیں تو سردار چلے ہیں
جب دھوپ نگل جاۓ گی دیوار کا سایہ
جائیں گے کہاں جو پس دیوار چلے ہیں
پرچم کے لۓ جس کو ضرورت ہو وہ آۓ
کچھ چاک گریباں سربازار چلے ہیں
نہ دل کی دیت کوئ نہ کوئ جنوں کا صلہ
طلب کے دشت میں کیا بے نیاز ہیں ہم لوگ
تمام عمر لکھی آرزوۓ مہر کے نام
ستارہ شب ہجراں نواز ہیں ہم لوگ
یہی قبا تو ہمارے بدن پہ سجتی ہے
لہو لہو ہیں مگر دلنواز ہیں ہم لوگ
وہ گیت ہیں جو زخمی لبوں پہ مچلے ہیں
فگار ہاتھوں میں دھرتی کا ساز ہیں ہم لوگ
قباۓ زخم دل ناتواں پہ سجتی ہے
یہ تازگی تو اسی نیم جاں پہ سجتی ہے
بہت حسین ہے یہ چاندنی مگر اے دوست
یہ چاندنی تو اک آرام جاں پہ سجتی ہے
یزید عصر نظام ستم کی خیر منا
یہ قتل گاہ مرے کارواں پہ سجتی ہے
ہمارا نام شہیدان کج کلاہ میں ہے
ہماری آن صلیب گراں پہ سجتی ہے
ہوا کے شور میں آواز پاء سنائ دے
ہر ایک سمت تمہاری صدا سنائ دے
حصار شہر کی بے آبروئ بھی دیکھو
ہوا کے دوش پہ لہجہ مرا سنائ دے
جہاں جہاں تیرے ستم کی بات چلے
ہمارے لہجہ میں نام وفا سنائ دے
دھنک کے جسم صبح اتر گئ ہوگی
چھوؤ تو نغمۂ باد صبا سنائ دے
نہ جانے کیسے دوانے کو موت آئ ہے
تمام دشت لہو کی صدا سنائ دے
نہ بجھا سکے اندھیرے مری سوچ کے ستارے
کہ سحر سے مل گۓ ہیں مری زندگی کے دھارے
سر رہگذر لہو نے مرے نقش کیں صدائیں
کوئ ہے جسے زمانہ مرے نام سے پکارے
یہی شرط عاشقی ہے ہو عزیز تر وہ بازی
جسے ہار کر بھی جیتے جسے جیت کر بھی ہارے
سرہگذر طلب کا کسے اعتبار ہوگا
یہاں معتبر وہی ہے جو طلب می جاں گذارے
میرا پیار ان کو پہنچے کہ طلب میں صبح نو کی
رگ جاں میں جن کی نشتر شب ظلم نے اتارے
یقین ہے تو صفوں میں قدم ملا کے چلے
جسے یقین نہیں ہم کو آزما کے چلے
ہمارے قافلے تو اس طرح سے بنتے ہیں
تماشا دیکھنے والے علم اٹھا کے چلے
ہمیں قبول نہیں ہے ملامت یاراں
تمہارے نام پہ کیوں کوئ سر جھکا کے چلے
سکوت شب کے غزلخوانوں کو سلام سحر
سحر سے پہلے جو لاکھوں دۓ جلا کے چلے
تمہیں نہ ہو تو نہ ہو اعتبار صبح نو
ہمیں تو ہے ہم اندھیرے کے تیر کھا کے چلے

